جوگندر ناتھ منڈل بنگال کے دلت خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ 1904ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے‘ اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور دلت کمیونٹی کے حقوق کے لیے لڑنا شروع کر دیا‘ دلت ہندوؤں کا چوتھا طبقہ ہیں‘ یہ لوگ اچھوت کہلاتے ہیں‘ یہ ہندو معاشرے میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارتے ہیں‘ آج سے ستر سال قبل ان لوگوں کو کوئی انسانی حق حاصل نہیں تھا۔ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ڈاکٹر امبیدگر اور جوگندر ناتھ منڈل دلتوں کے دو بڑے لیڈر تھے‘ یہ اچھوتوں کے حقوق کے لیے سیاست میں آئے اور کمال کر دیا‘ قائداعظم محمد علی جناح جوگندر ناتھ منڈل سے بہت متاثر تھے‘ پاکستان سے قبل آل انڈیا مسلم لیگ نے بنگال میں دوبار حکومت بنائی‘ خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی ان حکومتوں کے سربراہ تھے، جوگندر ناتھ منڈل ان دونوں حکومتوں میں شامل رہے۔
انگریزوں نے 1946ء کے الیکشنوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے لیے پانچ پانچ وزراء پر مشتمل دو عبوری حکومتیں بنائیں‘ قائداعظم نے جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کی طرف سے کابینہ کا رکن نامزد کیا‘ یہ ہندوستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جب کسی قومی پارٹی نے کسی دلت کو وفاقی کابینہ کا حصہ بنایا ہو‘ قائداعظم کی فراخ دلی پر اچھوتوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ یہ دیوانہ وار باہر نکلے اور قائداعظم کی رہائش گاہ کی طرف چل پڑے‘ یہ لوگ چلتے چلتے ہزاروں کا مجمع بن گئے۔ یہ قائداعظم کی رہائش گاہ پہنچے اور ہاتھ جوڑ کر ان کا شکریہ ادا کیا‘ قائداعظم صرف یہاں تک محدود نہ رہے بلکہ 10 اگست 1947ء کو جب کراچی میں پاکستان کی پہلی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو قائداعظم نے جوگندر ناتھ منڈل کو اس اسمبلی کا صدر نامزد کر دیا‘ خان لیاقت علی خان نے اسمبلی کے صدر کے لیے جوگندر ناتھ منڈل کا نام پیش کیا۔
خواجہ ناظم الدین نے تائید کی اور اسمبلی نے منڈل کو بلامقابلہ صدر منتخب کر لیا یوں یہ پاکستان کے پہلے اسپیکر بن گئے‘ وہ اسمبلی تین حوالوں سے اہم ترین تھی‘ پہلا حوالہ‘ اسمبلی نے جوگندر ناتھ منڈل کی سربراہی میں قائداعظم محمد علی جناح کو ملک کا گورنر جنرل اور لیاقت علی خان کو پہلا وزیراعظم منتخب کیا‘ دوسرا حوالہ‘ پاکستان کا پرچم پہلی بار جوگندر ناتھ منڈل کی صدارت میں لہرایا گیا‘ پاکستان کو پاکستان ڈکلیئر کیا گیا اور ملک کے عوام کو مبارکباد کا پیغام دیا گیا اور تیسرا حوالہ‘ پاکستان کے عوامی نمایندوں نے اس اسمبلی کو ملک کا پہلا آئین بنانے کا فریضہ سونپا اور یوں وہ اسمبلی دستور ساز اسمبلی قرار پائی۔
یہ ٹاسک بھی اسمبلی کو جوگندر ناتھ منڈل کی صدارت میں سونپا گیا‘ محبت کا یہ سلسلہ یہاں تک نہ رہا بلکہ جب پاکستان کی پہلی کابینہ بنی تو قائداعظم نے جوگندر ناتھ منڈل کو ملک کے پہلے وزیر قانون کا قلم دان سونپ دیا‘ منڈل کو کشمیر افیئرز کے پہلے اور کامن ویلتھ کے دوسرے وزیر کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے آج کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا قانون ایک ہندو وزیر نے بنایا تھا اور قوانین میں ترامیم کا پہلا ڈرافٹ بھی اسی ہندو دلت کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا‘ کشمیر پر پہلی پریس کانفرنس‘ اقوام متحدہ میں کشمیر تنازعے کا پہلا ڈرافٹ اور پاکستان کے دستور کے ابتدائی خاکے کا کریڈٹ بھی اسی ہندو دلت کو گیا اور یہ اعزاز اسے قائداعظم‘ لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین جیسے بانیانِ پاکستان نے دیا لیکن تین سال بعد کیا ہوا؟
اس جوگندر ناتھ منڈل نے تین سال بعد وزارت سے استعفیٰ دیا‘ پاکستان کو خیر باد کہا‘ وہ ہندوستان گیا اور باقی زندگی گم نامی میں گزار دی ‘ منڈل خاموشی سے 1968ء میں انتقال کر گئے لیکن ان کا استعفیٰ آج تک زندہ ہے‘ یہ استعفیٰ 25 صفحات پر مشتمل ہے‘ یہ انٹرنیٹ پر موجود ہے اور یہ اس پاکستان کا کتبہ ہے جو قائداعظم نے بنایا تھا اور جس کی بنیادوں میں جوگندر ناتھ منڈل جیسے پاکستانیوں کا خون تھا۔
پاکستان کی پہلی اسمبلی کے 53 ارکان تھے‘ ان میں سے 13 غیر مسلم تھے‘ یہ لوگ شرح میں 25فیصد بنتے تھے گویا پاکستان بنانے والوں نے 25 فیصد غیر مسلموں کو مملکت خداداد کا حصہ تسلیم کیا تھا‘ پاکستان میں 1951ء تک کل آباد کا 24فیصد غیر مسلموں پر مشتمل تھا‘ ہم مسلمان 70 برسوں میں پھیل کر ساڑھے تین کروڑ سے 20 کروڑ ہو گئے لیکن غیر مسلموں کی شرح 24فیصد سے 5فیصد پر آ گئی‘ باقی 19فیصد کہاں گئے؟ ہمیں ملک کے 70ویں یوم آزادی پر اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے؟
آپ المیہ ملاحظہ کیجیے جہلم کے ایک ہندو سیاستدان لالہ نارائن نے 1946ء کا الیکشن لڑا‘ وہ جیت گئے‘ پاکستان بنا تو وہ بھارت نہیں گئے‘ وہ جہلم میں مقیم رہے‘ وہ بھی پاکستان کی پہلی اسمبلی کے رکن تھے‘ وہ قائداعظم کو گورنر جنرل اور لیاقت علی خان کو وزیراعظم منتخب کرنے والے ارکان میں شامل تھے لیکن وہ بھی تین برسوں میں اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوئے اور خاندان سمیت بھارت چلے گئے‘ وہ دہلی میں آباد ہوئے‘ ان کا ایک بیٹا اندر کمار بڑا ہوا‘ سیاست میں آیا اور بھارت کا وزیراعظم بن گیا‘ جی ہاں لالہ نارائن کے نام کے ساتھ گجرال آتا تھا اور ان کے صاحبزادے کا نام آئی کے گجرال تھا۔
آپ پاکستان میں اقلیتوں کی تاریخ نکال لیجیے‘ آپ کو ان میں لالہ نارائن گجرال اور جوگندر ناتھ منڈل جیسے ہزاروں لوگ ملیں گے‘ یہ لوگ پاکستان میں رہے اور یہ مرنے تک پاکستان میں رہنا چاہتے تھے لیکن ہمارے رویوں نے انھیں ملک سے مار بھگایا‘ یہ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے اور یہ بھارت‘ یورپ‘ کینیڈا اور افریقہ چلے گئے‘ کیوں؟کیا ہم نے کبھی سوچا؟ آپ جب بھی سوچیں گے آپ کو پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم ہم مسلمانوں سے زیادہ پاکستانی محسوس ہوں گے‘ ہم ماننے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ہم مجبوری کے پاکستانی ہیں جب کہ یہ لوگ اس ملک میں بائی چوائس رہ رہے ہیں‘ پاکستانی ہندو کسی بھی وقت بھارت جا سکتا ہے‘ بھارت اسے چند ماہ میں شہریت دے دیتا ہے‘ سکھ بھی بھارتی پنجاب کا رخ کر سکتے ہیں‘ پارسیوں کے لیے پوری دنیا کھلی ہے اور عیسائی کسی بھی کرسچین ایمبیسی سے ویزہ لے کر یورپ کے کسی بھی ملک میں سیٹل ہو سکتے ہیں لیکن یہ لوگ اس کے باوجود پاکستان میں آباد ہیں‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ ہم سے بہتر پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا یہ ہم مسلمان پاکستانیوں سے زیادہ عزت کے حق دار نہیں ہیں؟
میری پاکستان کے تمام شہریوں سے درخواست ہے آپ قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر ضرور پڑھیں‘ یہ تقریر انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے‘ یہ ڈیلی ڈان کے 12 اگست 1947ء کے شمارے میں بھی ہے اور یہ تاریخ پاکستان کی نصف درجن کتابوں میں بھی محفوظ ہے‘ قائداعظم نے اپنی پہلی تقریر میں فرما دیا تھا’’ آپ اب آزاد ہیں‘ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں‘ اپنے مندروں میں جائیں‘ اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں‘ آپ کا کسی مذہب‘ ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو‘ کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
آپ وہ تقریر پڑھیں‘ آپ کے سارے طبق روشن ہو جائیں گے‘ آپ کو قائداعظم کے پاکستان تک پہنچتے دیر نہیں لگے گی لیکن آج 70 سال بعد ہم کہاں ہیں اور قائداعظم کا پاکستان کہاں ہے؟ کیا ہم نے ان 70 برسوں میں ہندو پاکستانی‘ سکھ پاکستانی‘ عیسائی‘ پارسی اور بودھ پاکستانی کو پاکستانی کا درجہ دیا‘ کیا ہم نے ان لوگوں‘ ان لوگوں کی ماؤں‘ بہنوں‘ بچیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا؟
ہمیں ماننا ہوگا ہم آج تک خود اصلی مسلمان نہیں بن سکے لیکن ہم نے غیر مسلموں کو زبردستی مسلمان بنانا اور ان کی عبادت گاہوں پر قبضہ کرنا اپنا فرض سمجھا اور یہ آج کی صورتحال نہیں‘ ہم نے قائداعظم محمد علی جناح کو زیارت بھجوانے کے فوراً بعد یہ کام شروع کر دیا تھا ورنہ جوگندر ناتھ منڈل اور لالہ نارائن گجرال جیسے لوگ پاکستان کیوں چھوڑتے؟ یہ اپنے بنائے پاکستان سے نقل مکانی کیوں کرتے؟
ہمیں اپنی غلطیاں ماننا ہوں گی‘ ہمیں ان غلطیوں کو سدھارنا بھی ہو گا‘ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا مذہب انسانوں کے لیے ہوتے ہیں ریاستوں کے لیے نہیں اور جب ریاستیں کسی عقیدے کو قومی مذہب تسلیم کرتی ہیں تو یہ پہلے منڈل اور نارائن گجرال جیسے لوگوں سے محروم ہوتی ہیں اور پھریہ سنی‘ شیعہ‘ اہل حدیث بریلوی اور دیوبندی میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور یہ آخر میں اچھا مسلمان بن کر برے مسلمان اور اصلی عیسائی بن کر نقلی عیسائی پر حملے شروع کر دیتی ہیں اور یوں ریاستیں پہاڑ کے آخری سرے پر پہنچ جاتی ہیں اور ہم نفرت کے جوتے پہن کر 70 سال بعد وہاں آ گئے ہیں جہاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سانحہ کوئٹہ کی پہلی برسی کے موقع پر تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایسے الفاظ بول دیتے ہیں جس سے پوری ہندو کمیونٹی کو تکلیف پہنچتی ہے‘ ہمیں یہ رویہ بدلنا ہوگا‘ ہمیں ماننا ہوگاہم نے قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا‘ہم ظالم ہیں‘ ہم بے انصاف ہیں۔