ریجنٹ پلازہ کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع تھا‘ یہ ہوٹل ائیر پورٹ سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا‘ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک پورے گلف میں مشہور تھا‘ عرب شہزادے اور بزنس مین کراچی آتے تھے اور ریجنٹ پلازہ کے کیبرے ڈانس اور کلب سے لطف اندوز ہوتے تھے‘ یہ ایشیا کے اعلیٰ ترین ہوٹلوں میں شمار ہوتا تھا لیکن پھر یہ حالات کا شکار ہوتا چلا گیا‘ عمارت بکتی اور خریدی جاتی رہی اور اس میں لاتعداد ناموں سے ہوٹل بنتے اوربند ہوتے رہے لیکن ان تمام تر ناکامیوں کے باوجود یہ عمارت زندہ بھی رہی اور اس میں کوئی نہ کوئی ہوٹل بھی چلتا رہا مگر پھر 4 اور 5 دسمبر کی درمیانی رات آ گئی‘ رات دو بجے کچن میں آگ لگی‘ ہوٹل میں دھواں بھرا اور یہ عمارت خوفناک المیہ بن گئی‘ آگ نے چھ منزلوں کو لپیٹ میں لے لیا‘ ہوٹل میں اس وقت 600 لوگ مقیم تھے‘ یہ تمام لوگ عمارت میں پھنس گئے۔
افراتفری مچی تو پتہ چلا ہوٹل میں آگ بجھانے کا کوئی بندوبست نہیں‘ آلات پرانے بھی ہیں اور ناکارہ بھی‘ عملے کو آگ بجھانے کی ٹریننگ نہیں‘ ہوٹل سے نکلنے کے ہنگامی راستے بند ہیں اور الارم سسٹم کام نہیں کر رہا‘ مہمانوں کو اس وقت تک آگ کی اطلاع نہ مل سکی جب تک دھوئیں نے ان کا گلہ نہ دبا دیا‘ فائر بریگیڈ کو ڈیڑھ گھنٹے بعد پتہ چلا‘ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچیں تو ہوٹل کے اندر داخل ہونے کاراستہ چھوٹاتھا‘ گیٹ پر سیکیورٹی کی رکاوٹیں تھیں‘ ہوٹل اور فائربریگیڈ کے پاس رکاوٹیں ہٹانے کا بندوبست نہیں تھا‘ فائر فائیٹرز کے پاس لمبی سیڑھیاں‘ رسے ‘ پائپ‘ ماسک ‘ آکسیجن کے سلینڈراورہوٹل کے نقشے بھی نہیں تھے ‘ مناسب تعداد میں ایمبولینسز اور طبی عملہ بھی نہیں تھا چنانچہ اس افراتفری میں 12 افراد جاں بحق اور 117 زخمی ہو گئے اور جو بچ گئے وہ کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر اور بستروں کی چادروں کے رسے بنا کر باہر نکلے‘ ہوٹل کا منیجربابر الیاس بہادر تھا‘ وہ ہوٹل میں پھنسے لوگوں کو نکالتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔
یہ حادثہ ایک ایسا ڈیٹرجنٹ پاؤڈر ثابت ہوا جس نے ہماری اہلیت‘ ذہانت اور مہارت کے تمام کچے رنگ اتار دیے‘ جس نے ہمیں دنیا کے سامنے ننگا کر دیا‘ جس نے ثابت کر دیا ہمارے ملک میں فور اور فائیواسٹار ہوٹل بھی محفوظ نہیں ہیں‘ جس نے دنیا کو بتا دیا کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی آگ بجھانے کے آلات‘ فائر بریگیڈ اور فائر فائیٹنگ کی جدید تکنیکس موجود نہیں ہیں‘یہ ایک المیہ تھا‘ آپ اب دوسرا المیہ ملاحظہ کیجیے ہم نے دیگر واقعات کی طرح اس واقعے کو بھی 15 دنوں میں فراموش کر دیا‘ وزیراعلیٰ نے نوٹس لیا‘ حکومت نے چھوٹی سی رپورٹ بنوائی اور یہ نوٹس اور یہ رپورٹ بھی دوسری رپورٹوں اور نوٹسز کے ساتھ ردی کے ڈھیر میں دفن ہو گئی‘ قصہ ختم۔ہماری حکومتیں بادشاہ ہیں‘ یہ قصے ختم کرتی آئی ہیں اور یہ مستقبل میں بھی ختم کرتی رہیں گی لیکن وہ معصوم لوگ جو اس حادثے میں مارے گئے کیا ان کے لواحقین بھی بھول جائیں گے؟
جی نہیں یہ سانحے ناسور بن کر پوری زندگی ان کے وجود کا حصہ رہے گا‘ مجھے حکومتوں سے زیادہ توقعات نہیں ہیں لیکن ہم اگر عوام کو ذرا سا ٹرینڈ کر دیں تو مستقبل میں بے شمار لوگ ایسے واقعات اور حادثات سے بچ سکتے ہیں‘ ہم اگر ذرا سی توجہ دیں تو ہم صورت حال کو بہتر بنا سکتے ہیں لیکن کیسے؟ ہمیں اس کے لیے اپنی زندگی میں چند عادتوں کا اضافہ کرنا ہو گا‘ مثلاً آپ جب بھی کسی ہوٹل میں قیام کریں ‘ آپ کمرے میں داخل ہوتے ہی مین دروازے کے پیچھے لگا نقشہ پڑھیں اور ایمرجنسی کی صورت میں ہوٹل سے نکلنے کے راستے ازبر کر لیں‘ میں عموماً ہوٹل میں چیک ان کرنے کے بعد ایمرجنسی راستہ تلاش کرتا ہوں اور ایک بار اس سے گزر کر ہوٹل سے ضرور باہر جاتا ہوں خواہ وہ ہوٹل دس منزلہ ہی کیوں نہ ہو‘ اگر کمرے کے دروازے کے پیچھے نقشہ نہ ہو تو آپ فوراً استقبالیہ پر فون کریں اور ان سے نقشہ حاصل کریں‘ آپ کمرہ ریزرو کراتے وقت بھی یہ معلومات لے سکتے ہیں۔
آپ کو اگرذرا سا بھی شک ہو تو آپ اس ہوٹل میں کمرہ بک نہ کرائیں‘ آپ کو اگرکمرے میں دھواں محسوس ہو تو آپ سب سے پہلے کھڑکی کھولیں‘ اگر کھڑکی کا شیشہ فکس ہو تو آپ شیشہ توڑ دیں‘ آپ شیشہ توڑنے کے بعد باتھ روم میں جائیں‘ تمام تولیے پانی سے تر کریں‘ یہ تولیے گردن پر لپیٹیں‘ منہ پر رکھیں اور کمرے سے باہر آ جائیں‘ آپ اگر اپنے لباس کو بھی پوری طرح گیلا کر لیں گے تو یہ بھی آپ کے لیے اچھا ہو گا‘ آپ ننگے پاؤں ہرگز باہر نہ نکلیں‘ آپ کے پاؤں میں شیشے لگ جائیں گے اور یوں آپ بھاگ نہیں سکیں گے‘ میرے اکثر دوست ہوٹل میں ’’چیک ان‘‘ کرتے وقت کوریڈور میں آگ بجھانے والے سلینڈر دیکھتے ہیں؟ اگر سلینڈر ہوں تو وہ یہ جگہ ذہن نشین کر لیتے ہیں‘ آپ بھی یہ معمول بنا لیں اور آپ اگر خدانخواستہ آگ کا شکار ہو جاتے ہیں تو آپ سیدھے ان سلینڈر کی طرف جائیں اور ان کا لیور کھینچ دیں‘ آپ ایمرجنسی میں اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بھی ضرور فون کریں‘ یہ فون بھی آپ کی مدد کرے گا‘ آپ کا کوئی نہ کوئی دوست وہاں ضرور پہنچ جائے گا۔
آپ جتنا ممکن ہو جھک کر آگے بڑھیں‘ دھواں ہمیشہ اوپر کی طرف اٹھتا ہے‘ فرش کے قریب آکسیجن ہوتی ہے‘ یہ آکسیجن آپ کی مدد کرے گی‘ آپ کے پاس اگر چوائس ہو تو آپ کوشش کریں آپ بالکونی والا کمرہ لیں یا پھر کم از کم آپ کا کمرہ باہر کی طرف ہونا چاہیے‘ آپ ایمرجنسی میں کھڑکی میں کھڑے ہو جائیں اور چادر لہرانا شروع کر دیں یہاں تک کہ ریسکیو ورکرز آپ کو دیکھ لیں‘ آپ اگر بالائی منزلوں پر ہیں تو آپ کھڑکی سے کودنے کی غلطی نہ کریں کیونکہ آپ آگ سے تو بچ جائیں گے لیکن آپ کود کر نہیں بچ سکیں گے‘ آپ کو رہائش کے دوران ہوٹل میں جو بھی خامی نظر آئے آپ چیک آؤٹ کرتے وقت ہوٹل کی انتظامیہ کو وہ ضرور بتا ئیں‘ آپ اگلی مرتبہ اس ہوٹل میں آئیں تو آپ ان خامیوں کا جائزہ لیں اور آپ کو اگر اس بار بھی وہ خامیاں نظر آئیں تو آپ اپنی پرانی شکایت کا حوالہ دے کر دوبارہ شکایت درج کرائیں‘ آپ اپنے دوستوں کو بھی ان خامیوں سے ضرور مطلع کریں تا کہ وہ بھی جب اس ہوٹل میں ٹھہریں تو وہ بھی ان کا جائزہ لیں اورانتظامیہ کو بتائیں۔
ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے ہماری حکومتیں نالائق اور ہمارے سرکاری ادارے بے حس ہیں‘ یہ عوام کے لیے کچھ کررہے ہیں اور نہ کریں گے‘ اپنے اور اپنے خاندان کو بچانا ہماری اپنی ذمے داری ہے‘ ہمیں یہ ذمے داری خود نبھانا ہو گی چنانچہ ہمیں چاہیے ہم اپنی گاڑی میں آگ بجھانے کا سلینڈر ضرور رکھیں‘ ہم اپنے بچوں کی اسکول وین میں بھی اس کا بندوبست کرائیں‘ ہم مالکان اور کمپنی سے درخواست کریں وہ وین یا بس میں سلینڈر لگوا دیں‘ ہم بچوں کو ٹریننگ دیں وہ سلینڈر کی ایکسپائری ڈیٹ یاد کر لیں ‘ وہ والدین کو ایکسپائری ڈیٹ سے ایک ماہ پہلے اطلاع دے دیں اوروالدین کمپنی کو ’’ری فلنگ‘‘ کی یاددہانی کرا دیں‘ ہم بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے وقت بھی انتظامیہ کو آگ بجھانے والے آلات رکھنے کا مشورہ دیں۔
یہ لوگ اگر ہمارے مشورے پر عمل نہ کریں تو ہم ان کی بسوں میں سفر کرنا بند کر دیں‘ ہمارا یہ بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہے جب تک وہ بسوں میں سلینڈر نہیں رکھتے‘ آپ رات سونے سے پہلے پانی کا جگ یا بوتل بستر کے قریب رکھ لیا کریں‘ یہ پانی آپ کو ہنگامی صورت حال میں مدد دے گا‘ آپ اگر افورڈ کر سکتے ہیں تو آپ گاڑی اور گھر میں آگ بجھانے والے کمبل بھی رکھ لیں‘ یہ بھی آپ کی مدد کریں گے‘ آپ اپنے خاندان کو فرسٹ ایڈ اور آگ سے بچنے کی ٹریننگ بھی دلوائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو آپ انٹرنیٹ سے ریسکیو کی شارٹ فلمیں نکالیں‘ خود بھی دیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی دکھائیں‘ یہ بھی آپ کو فائدہ پہنچائیں گی اور میری حکومت سے بھی درخواست ہے۔
یہ اگر ملک کے 20 بڑے شہروں کو فائر بریگیڈ کا جدید اور ایکٹو سسٹم نہیں دے سکتی‘ یہ اگر تھری‘ فور اور فائیو اسٹار ہوٹلوں اور ریستورانوں سے بھی ’’ایس او پیز‘‘ پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی تو پھر اس کو ملک پر حکمرانی کا کوئی حق نہیں‘ یہ لوگ پھر واقعی لوگوں کے قاتل ہیں اور ان کے گریبان قیامت کے دن لوگوں کے ہاتھوں میں ہوں گے اور میری آخر میں ہوٹل انڈسٹری سے بھی درخواست ہے ملک میں اگر تھری‘ فور اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کی انتظامیہ بھی ہنگامی صورتحال کی ’’ایس او پیز‘‘ فالو نہیں کر رہیں تو پھر اس ملک کا واقعی خدا حافظ ہے‘ پھر ہم دنیا کی نالائق ترین قوم ہیں ‘ ہمیں یہ نالائقی فوری طور پر تسلیم کر لینی چاہیے اور ہمیں ملک میں ’’ہم دنیا کی باصلاحیت اور قابل ترین قوم ہیں‘‘ جیسے فقروں پر پابندی لگا دینی چاہیے‘ ہمیں یہ دعویٰ ترک کر دینا چاہیے۔