ایڈ ز ہے کیا؟اس کی علامات کیا ہیں؟اسباب اور علاج کے بارے میں اور سب سے اہم اس کی وجوہات بارے لوگوں میں شعور و آگاہی فراہم کرنے کے لئے ہے ۔ ایڈز ایک وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، جسے ایچ آئی وی کہتے ہیں، جس میں یہ وائرس ہو اس کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے، یعنی بیماریوں کے خلاف جو قوت ہوتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے،ایڈز اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب ایچ آئی وی کا وائرس یا انفیکشن جسم میں موجود ہو اور ساتھ ہی ساتھ نیچے دی گئی، علامات میں سے ایک سے زیادہ علامتیں بھی پائی جاتی ہوں ۔علامات سے مراد کسی مرض کے اثرات ہوتے ہیں جو مریض محسوس کرتا ہے ۔علامات اور تشخیص میں فرق ہوتا ہے، تشخیص کسی مرض کی موجودگی کی تصدیق ،ثبوت کو کہتے ہیں ۔
یکم دسمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ ایڈ ز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987 ءمیں منایا گیا ۔ہر سال
یہ دن کسی خاص تھیم اور سلوگن کے تحت منایا جاتا ہے اس سال 2016ءمیں( قیادت،وابستگی،اثرات) کے تھیم سے منایا جارہا ہے ۔اس کے مقاصد میں عوام الناس کو اس مہلک مرض کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا شامل ہے ۔
ایڈز ایکوائرڈ ایمونو ڈیفیشنسی سنڈروم کامخفف ہے ۔اس دن کی مناسبت سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں فیچر اورآرٹیکل شائع ہوتے ہیں اور ٹی وی پر ٹاک شوز کیے جاتے ہیں ۔زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا۔ لیکن اب یہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، اور ایک اندازے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تین کروڑ چھیاسی لاکھ افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ایڈز کی علامات عام ہوتی ہیں، مثلاََ بخار، سردی کا لگنا اور پسینہ ( خاص کردوران نیند پسینہ)دست ،وزن میں بہت زیادہ کمی،کھانسی اور سانس میں تنگی ،مستقل تھکاوٹ،جلد پر زخم ،مختلف اقسام کے نمونیائی امراض ،آنکھوں میں دھندلاہٹ ،جوڑوں کا درد ،گلے میں سوجن اور نزلہ زکام کا ہونا اور مسلسل سردردوغیرہ شامل ہیں۔
ایچ آئی وی کس طرح مریض کے جسم میں داخل ہوتا ہے ؟ ایڈز وائرس یعنی ایچ آئی وی دیگر وبائی امراض کی طرح کسی متاثرہ شخص کے قریب ہونے ، بات کرنے ، اسکو چھونے یا اسکی استعمال کردہ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے جسم میں داخل نہیں ہوجاتا۔ بلکہ مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاءسے ہونے والے (اخراجات) یا رطوبتیں ، متاثرہ شخص کے خون سے ،لعاب(سالیوا) یعنی آب دھن یا تھوک ،انجکشن کی سرنج ، ایڈز میں مبتلا ماں کا دودھ،کان ،ناک چھدوانے کے لیے جو اوزار استعمال ہوتے ہیں، ان کی مناسب صفائی نہ ہونا ، متاثرہ فرد کاشیونگ بلیڈ سے شیو کرنا اور دانتوں کی صفائی کے دانتوں کے ڈاکٹر جو اوزار وغیرہ استعمال کرتے ہیں، ان کا مناسب صحت
کے اصولوں کے مطابق نہ ہونا وغیرہ اس کا سبب بنتی ہیں ۔اب کوئی معمولی بیماری بھی حملہ کرے تو انسان میں قوت مدافعت نہ ہونے کے سبب اس کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔اس مرض کا سب سے اہم سبب انفیکشن ہے ۔ایڈز کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ہے، اس بات میں کافی سچائی ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ تازہ ترین تحقیقات میں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے جن کا ذکر آگے کریں گے ۔
ایچ آئی وی اور ایڈزکو عموماً ایک ہی خوفناک بیماری کے دو مختلف نام سمجھا جاتا ہے لیکن میڈیکل سائنس کے مطابق دونوں میں واضح فرق ہے۔ جب کسی شخص کو ایچ آئی وی پازیٹو قرار دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کے خون میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہوچکا ہے۔ وائرس کے جسم میں منتقل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس شخص کو ایڈز کا مریض قرار دے دیا گیا ہے، کیونکہ یہ وائرس کئی سال تک جسم میں خوابیدہ حالت میں رہ سکتا ہے۔ صرف ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تاحال جسمانی مدافعت اس قدر متاثر نہیں ہوئی کہ انسان بیماری کا مقابلہ نہ کر سکے، لہٰذا اسے ایڈز کا مریض قرار نہیں دیا جاتا۔ البتہ اس شخص کے ساتھ جنسی تعلق، اس کے خون کے انتقال یا اس کی استعمال کی ہوئی سرنج استعمال کرنے کی صورت میں وائرس کسی دوسرے شخص میں منتقل ہونے کا خدشہ ضرور ہوتا ہے۔
اس بیماری سے بچاﺅ کی احتیاطی تدابیر سے پہلے اس بات کو سمجھ لینا چاہیے یہ کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے ہی یہ مرض لگتا ہے۔جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے تا حال اس کا علاج دریافت نہیں ہو سکا ،اس کے لیے اس کی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے، اس لیے بھی کہ یہ عین اسلامی تعلیمات ہیں مثلاََ صفائی جسے اسلام میں نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے اور جن اوزار وغیرہ سے دانت ،ناخن صاف کیے جائیں ان کا صاف ہونا ۔ایک مرد کے اپنی بیوی سے ہٹ کر زیادہ عورتوں سے تعلقات رکھنا خاص کر پیشہ ور عورت سے تعلقات رکھنا اسی طرح عورتوں کو یہ مرض مردوں سے منتقل ہوتا ہے ۔
ایک بہت ہی خاص بات جس سے میں اپنی قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ۔ ایڈز یقینا ایک خطرناک بیماری ہے مگر جنسی ذرائع سے اس کے پھیلنے کا تناسب بارہ فیصد ہے ۔ جبکہ دیگر ذرائع سے پھیلنے کا تناسب اندازاََ اٹھاسی فیصد ہے ،پھر صرف جنس پر ہی اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے ۔یہ ایک پراپیگنڈہ ہے، جس کا مقصد آگاہی کے پردے میں معاشرہ بے باکی و جنس پر گفتگو کی راہ ہموار کرنا ہے ۔اس کا مقصد ہمارے معاشرے سے فطری شرم و جھجک کا خاتمہ ہے ۔کچھ لوگوں کا مشن ہے کہ ہمارے نصاب میں جنسی تعلیم کو شامل کیا جائے تاکہ معاشرہ میں بے حیائی پھیل سکے ۔ ایڈز سے بچاﺅ کی صرف ایک یہ ہی صورت رہ گئی ہو اس لیے ان دیگر وجوہات پر بھی بات ہونی چاہئے ،جو اس کا سبب بن رہی ہیں ۔
خیر اب آتے ہیں، اصل موضوع کی طرف ،یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایڈز کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہے، جو کسی مریض کے ساتھ بیٹھنے ،چھونے سے منتقل نہیں ہوتی اس لیے جو اس کے مریض ہوں، ان سے ہمدری کا اظہار کرنا چاہیے، اس سے نفرت کا نہیںبات احتیاطی تدابیر کی ہو رہی تھی تو کسی کا بھی خون لگواتے وقت اس کے خون کے مکمل ٹیسٹ کروا لینے چاہیے ۔
پاکستان کو عالمی ادارہ صحت نے ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کر لیا ہے، دوسری جانب پاکستان میں لوگ شرم کے مارے خود کو رجسٹرڈ نہیں کرواتے بلکہ اپنے گھر والوں سے اس مرض کو چھپاتے ہیں اور اسی حالت میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں پھر پاکستان میں جہاں مردم شماری نہ ہوئی ہو وہاں کسی قسم کے اعداد و شمار کا درست حالت میں ملنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 85 ہزار سے ایک لاکھ 30 ہزارتک افراد ایچ آئی وی ایڈز کے مرض سے متاثر ہیں۔ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ان میں سے 45 ہزار مریضوں کا تعلق سندھ سے ہے۔ایڈز کی روک تھام کے لیے قائم کئے جانے والے سرکاری ادارے سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے پروگرام مینیجرڈاکٹر یونس چاچڑ کے مطابق صرف ایک سال کے عرصے کے دوران سندھ میں ایچ آئی وی وائرس کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ایڈزکنٹرول پروگرام کے تحت اس برس اب تک 4 ہزار 747 مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے جن کا علاج جاری ہے۔
جبکہ رواںسال کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں ایڈزوائرس کے مریضوں میں7 فیصد اضافہ ہوا ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔انسان کے جسم میں قوت مدافعت کم کرنے اور اسے دیگر امراض کا آسان ہدف بنانے والے ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلا¶ کا سب سے بڑا سبب نشے کے لیے استعمال کی جانے والی سرنجیں ہیں۔ ڈاکٹر یونس چاچڑ کہتے ہیں، اس وقت صرف سندھ میں ہی 16ہزار افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں، 6 ہزار742 میل سیکس ورکرز، 9 ہزار69 خواجہ سرا جبکہ فی میل سیکس ورکرز کی بھی بڑی تعداد موجودہے جن کی وجہ سے ایڈز تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں 2015 میں دنیا بھر میں دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
ڈاکٹر چاچڑکے مطابق ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا افراد میں اس مرض کی علامات دیر بعد ظاہر ہوتی ہیں، اکثر مریضوں میں پہلے فلو کی طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسے بخار، پٹھوں میں درد، خارش، سر درد وغیرہ۔ اس کے علاوہ وزن میں کمی، اسہال بھی اس کی علامات میں شامل ہے تاہم اس کی درست تشخیص ایچ آئی وی ٹیسٹ کے بعد ہی کی جا سکتی ہے جس کی سہولت ملک بھر میں نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت قائم کیے جانے والے 15 مراکز میں موجود ہے جہاں سے یہ ٹیسٹ بالکل مفت کروائے جا سکتے ہیں۔ڈاکٹر چاچڑ کے مطابق ایڈز کے مرض پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے جو غلط تصورات ہیں، ان کو ختم کیا جائے کیونکہ عام طور پر لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی غلط طریقے یا بے راہ روی کے باعث لاحق ہوتا ہے۔ جبکہ اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں بلکہ یہ انتقال خون، استعمال شدہ ریزر بلیڈ، متاثرہ ماں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کو بھی ہو سکتا ہے۔
ایڈز کا مرض غربت کا شکار معاشروں کے لیے ایک ناسور بنا ہوا ہے، کیونکہ وہاں اتنا شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ مریض کس مرض سے مرا ہے ۔ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ پاکستان میں ایڈز کے ایک لاکھ سے زائد مریض ہو سکتے ہیں اور صرف 15 مراکز ہیں، جہاں اس کا ٹیسٹ مفت ہو رہا ہے ۔جہاں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں میڈیکل چیک اپ کا تصور کہاں ،خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے یا وہ جن کی زندگی قرض اور خیرات پر گزر رہی ہو وہ جب بیمار ہوتے ہیں تو ٹیسٹ کہاں کرواتے ہیں اور کروا بھی کیسے سکتے ہیں۔ چپ چاپ قبر میں جا اترتے ہیں اور اپنے پیچھے اسی مرض کے اور مریض چھوڑ جاتے ہیں ۔
دنیا میںایک ایسا ملک روانڈا ہے جہاں پر 90 فیصد آبادی کیتھولک ہے، وہاں کی تین فیصد آبادی ایڈز کا شکار ہے۔اسی طرح بوٹسوانا کی 23 فیصد آبادی اس موذی مرض کا شکار ہے ۔وہاں پر اس مرض کا علاج یا اس کے دفاع کے لیے اسلامی طریقہ کے مطابق مردوں کے ختنے کر کے کیا جا رہا ہے اور ماہرین کہتے ہیں ختنے والے مردوں میں اس بیماری کے انفیکشن کا خطرہ 60 فیصد کم ہوتا ہے ۔ اس پر تحقیق ابھی جاری ہے ۔ ۔اسی طرح اسلام میں مردوں کو صرف اپنی بیوی یا بیویوں تک اور بیوی کو اپنے شوہر تک محدود رہنے کی بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس مرض سے بچنے کا سب سے آسان طریقہ ہے ۔سائنسدان دن رات اس مرض کے علاج کے لیے کوشاں ہیں اور وہ بہت پر امید ہیں۔ طبی ما ہرین نے ایک ایڈز کے کامیاب علاج کے دوا کی دریافت کا بھی عندیہ دیتے ہوئے خوش امیدی ظاہر کی ہے لیکن اس پر ابھی مزید تحقیق ہو رہی ہے ۔کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ دنیا میں کوئی مرض ایسی نہیں پیداکی گئی جس کا علاج نہ ہو۔
موذی مرض ایڈز کے حوالے سے افریقی ممالک ذہن میں آتے ہیں جہاں پریہ بیماری سب سے زیادہ پائی جاتی ہے لیکن ایک جینیاتی تحقیق کے مطابق اس کا آغاز کی ایک ایسی جگہ سے ہوا تھا جس کے متعلق کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ این بی سی نیوزکے مطابق تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایچ آئی وی اور ایڈز 1970ءمیں پہلی بار نیویارک سے پھیلنی شروع ہوئی۔ اس سے پہلے یہ تاثر عام پایا جاتا رہا ہے کہ اس مرض کا پہلا مریض ایک ہم جنس پرست مرد تھا جو نیویارک کا رہائشی اور پیشے کے لحاظ سے فلائٹ اٹینڈنٹ تھا اور یہی شخص افریقہ سے وائرس اپنے ساتھ لانے کا سبب بنا۔جب سے لوگوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی ہے، تب سے مریضوں کے خون کے منجمد نمونے ماہرین کے پاس موجود ہیں جن کے جینیاتی تجزیئے سے مندرجہ بالا انکشافات سامنے آئے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہرین کے مطابق 1970 ءمیں ایچ آئی وی تیزی سے نیویارک میں پھیل رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہم جنس پرستی کی لعنت بھی تیزی کے ساتھ نیویارک میں پھیل رہی تھی۔ اس وائرس کے ارتقاءکے ماہر مائیکل ووروبے کا کہنا تھا کہ ہم نے ایچ آئی وی کی جائے پیدائش کا سراغ لگا لیا ہے۔ ہماری تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ نیویارک ہی اس وائرس کا مرکز ہے۔ جب پہلی بار ایڈز کا انکشاف ہوا، اس سے کئی سال قبل ایچ آئی وی بہت زیادہ تعداد میں لوگوں میں پھیل چکا تھا۔ یہ وائرس 1976ءمیں نیویارک سے سین فرانسسکو پہنچا اور اس کے بعد پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی۔
سائنسدانوں نے ایک ایسی دوا تیار کرلی ہے جس کے بارے میں انہیں توقع ہے کہ یہ ایچ آئی وی اور ایڈز کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکے گی۔ اسرائیل کی یروشلم یونیورسٹی کے محققین نے ایک ایسے پروٹین کو شناخت کیا ہے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف آٹھ دنوں میں متاثرہ افراد کے اندر اس وائرس کو 97 فیصد تک کم کردیتا ہے۔ اس دریافت سے یہ توقع پیدا ہوئی ہے کہ اس مرض کے شکار افراد کو مدد مل سکے گی۔
ایچ آئی وی وائرس خون کے سفید خلیات کی ایک قسم سی ڈی فور کو نشانہ بناتا ہے جسے جسم امراض جیسے فلو کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ وائرس ان خلیات کی اندرونی مشینری کو ایسے استعمال کرتا ہے کہ اپنی زیادہ سے زیادہ نقلیں بنا کر انہیں تباہ کردیتا ہے۔جب سی ڈی فور خلیات کی تباہی کا عمل خون میں 200 فی کیوبک ملی میٹر تک پہنچ جائے تو اسے ایڈز قرار دیا جاتا ہے۔ یہ نئی دوا ٹیسٹ ٹیوبز کے ذریعے ایڈز کے شکار دس مریضوں کے خون میں شامل کی گئی جس میں موجود اجزاءڈی این اے میں موجود وائرس کی نقلوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے متاثرہ سفید خلیات کو تباہ کرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ وائرس مزید پھیل نہیں پاتا۔اب تک اس دوا کی آزمائش سے توقع پیدا ہوئی ہے کہ بہت جلد اس کی مدد سے ایچ آئی وی کے شکار سو فیصد خلیات کو ختم کیا جاسکے گا۔ ایچ آئی وی کے شکار افراد کو ابھی روزانہ ادویات کا استعمال کرنا ہوتا ہے تاکہ اس مرض کو دبایا جاسکے مگر اب تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ محققین کے مطابق ہماری کوشش ہے کہ متاثرہ خلیات کو ختم کردیا جائے تاکہ اس وائرس کو دوبارہ سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔
یکم دسمبر2016ءا یڈز کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر
اختر سردار چودھری ،کسووال