اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار جاں بحق ہوگیا۔ گاڑی سفارتخانے کے ملٹری اتاشی چلا رہے تھے، سفارتی قوانین کے مطابق انہیں استثنیٰ حاصل ہے؛ اس لیے انہیں گرفتار نہ کیا جاسکا اور وہ بحفاظت سفارتخانے واپس چلے گئے۔
بس یونہی خیال آگیا کہ سفارتی اہلکار کو بندہ مارنے کے بعد بھی استثنیٰ مل گیا، مگر ہمارے وزیراعظم امریکی ایئرپورٹ پر تلاشیاں دیتے رہے اور بتاتے رہے کہ وہ نجی دورے پر تھے اور ان کی عزت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ امریکی نائب وزیر خارجہ سے ملاقات بحیثیت چیئرمین ایئربلیو کی تھی یا بحیثیت وزیراعظم… مگر پوچھے کون کہ معاملہ کیا ہے؟
ابھی ملالہ کے سحر سے نکل ہی رہے تھے کے یہ واقعہ ریمنڈ ڈیوس کی یاد دلا گیا جس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کا قتل ہوا۔ پھر اسے بھی سفارتی استثنیٰ ملا اور دیت کے قانون کا مذاق اڑاتے ہوئے سارے ادارے اور مرکزی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آگئی تھیں۔
زیادہ امکان یہی ہے کہ اس حادثے کو بھی صرف حادثہ سمجھ کر معمول کی کارروائی کرکے نمٹا دیا جائے گا۔
بالفرض بات آگے بڑھی بھی تو دیت والا آپشن موجود ہے۔ ہمارے یہاں یہ روایت بن چکی ہے کہ اس قسم کے معاملات میں دھن اور دھونس کا استعمال کرکے مٹی ڈال دی جاتی ہے۔
انہی خیالوں میں گم تھا کہ ٹی وی پر ٹکرز چلنے لگے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شہید خاتون تنزیلہ امجد کی صاحبزادی بسمہ امجد سے ملاقات کی ہے اور انہیں انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی جبر و تشدد کا پاکستان میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا جس میں پنجاب پولیس نہتے مظاہرین پر چڑھ دوڑی تھی اور 14 افراد شہید اور سو سے زائد زخمی و معذور ہوگئے تھے۔ اس کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری اور ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان آئے روز بھرپور احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی ضمن میں 2014 میں اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا بھی دیا تھا جس کے نتیجے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی براہ راست مداخلت پر ایف آئی آر کاٹی گئی مگر بعد میں معاملات جوں کے توں رہے۔
اچنبھے کی بات ہمارے لیے یہ رہی کے شہداء کے لواحقین کو تین تین کروڑ روپے نقد اور بیرونِ ملک شفٹنگ کی آفر کی گئی مگر حکومت وقت تمام تر وسائل اور ترغیبات کے باوجود متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لواحقین میں سے کسی ایک شخص کو بھی خرید نہ سکی۔
یوں تو انصاف میں تاخیر بھی انصاف کے قتل کے مترادف ہوتی ہے، مگر چیف جسٹس صاحب کے اقدام سے امید ہو چلی ہے کہ بے گناہوں کا خون رنگ لائے گا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا اور وطن عزیز میں امیر اور غریب کےلیے یکساں قانون ہوگا…
… اور بسمہ امجد بھی فخر سے کہہ سکے گی کہ
اب سحر جو آئے گی، وہ سحر ہماری ہے!