ہم اپنے والدین کو بچپن سے اپنی ہر ضرورت کا خیال رکھتے دیکھتے ہیں۔ تعلیم اور خوراک سے لے کر ہمارے گھر بسانے اور دکھ، درد میں ڈھارس بندھانے تک وہ ہر وقت ہماری ہی فکر میں گھرے نظر آتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے لئے وہ جتنے بظاہر فکر مند نظر آتے ہیں حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔ والدین کی اس ناقابل بیان محبت کا ایک واقعہ برطانوی خاتون نکی پنگٹن نے بیان کیا ہے، جنہیں اپنی والدہ کی وفات کے بعد پتا چلا کہ انہوں نے ایک خاص راز ان سے چھپا کر رکھا ہوا تھا۔
نکی پینگٹن لکھتی ہیں کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ذہنی پریشانی ہمیشہ سے میری زندگی کا حصہ رہی ہے۔ اگر آپ ذہنی پریشانی کے مرض میں مبتلا ہوں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی میں کوئی ایک ایسا شخص ہے جو شدید پریشانی کی حالت میں آپ کا سہارا بن سکتا ہے اور آپ کی ڈھارس بندھاسکتا ہے۔ میرے لئے وہ شخص میری والدہ تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ایسی حالت میں انہوں نے کیسے مجھے سہارا دینا ہے اور کیسے واپس مجھے زندگی کی جانب لانا ہے۔

پھر ایک دن ایسا آیا کہ وہ دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ میں نے اس موقع پر اپنے خاوند سے کہا ”میری زندگی کا سب سے بڑا سہارا دنیا سے چلا گیا ہے۔، وہ جو مجھے جانتی تھیں اور میری پریشانیوں اور خامیوں کو سمجھتی تھیں۔ صرف وہی اس دنیا میں تھیں جو مجھے زندگی کے خوف سے نجات دلاسکتی تھیں۔ اب وہ بھی دنیا سے چلی گئی ہیں۔“

پہلی بات: خاموشی سے اس کی بات سنتے رہو
دوسری بات: کچھ دیر مزید سنو
تیسری بات: فوری طورپر مسئلے کے حل کی کوشش مت کرو
چوتھی بات: اسے بتاﺅ کہ تم اس کی بات کو سمجھ رہے ہو
پانچویں بات: اس کی بات سنتے رہو حتیٰ کہ وہ خود ہی اپنے مسئلے کے حل تک پہنچ جائے۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، وہ ہمیشہ اپنے مسائل کا حل خود ڈھونڈ لیتی ہے، اگرچہ اسے یہ بات معلوم نہیں ہے۔“
یہ باتیں سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ میری والدہ نے میری شادی کے وقت اپنی ذمہ داری میرے خاوند کو سونپ دی تھی، اس لئے نہیں کہ وہ ایسا چاہتی تھیں بلکہ اس لئے کہ انہیں معلوم تھا کہ ایک دن مجھے سہارا دینے کیلئے وہ اس دنیا میں نہیں ہوں گی۔ ماں، میں جانتی تھی کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو،لیکن میں نے اب جانا ہے کہ تمہاری محبت لامحدود تھی، جو تمہارے جانے کے بعد بھی میرا سہارا ہے۔








