’لاہور (ویب ڈیسک) کیا آپ ڈاکٹر ہیں‘‘ میں نے پوچھا۔ وہ چونک کر میری طرف مڑا‘ مجھے غور سے دیکھا اور ہنس کر بولا ’’جی نہیں چوہدری صاحب‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر آپ میڈیکل اسٹور چلاتے ہوں گے یا گھر میں فری ڈسپنسری بنا رکھی ہو گی یا پھر آپ ادویات سپلائی کرتے ہوں گے‘‘
نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’آپ کا یہ اندازہ بھی غلط ہے‘‘۔میں نے حیرت سے کائونٹر پر رکھی ادویات کی طرف دیکھا اور ہنس کر پوچھا ’’کیا یہ تمام ادویات آپ خود کھائیں گے‘‘ وہ بھی کائونٹر کی طرف مڑ گیا‘ کائونٹر پر ادویات کی پچیس تیس ڈبیاں رکھی تھیں‘ وہ ان ڈبیوں کی طرف دیکھتا رہا اور پھر مسکرا کر بولا ’’چوہدری صاحب یہ تمام دوائیں ہمارے گھر کی ضرورت ہیں‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ ہم میڈیکل اسٹور پر کھڑے تھے‘ دکان میں رش تھا‘ درجنوں گاہک تھے اور درجنوں ہی سیلزمین‘ ہر سیلزمین پانچ پانچ دس دس ڈبیاں نکالتا تھا۔گاہک سے تین چار ہزار روپے لیتا تھا اوراگلا گاہک آگے آ جاتا تھا‘ میں والدہ کی دوائیں لینے اسٹور پر گیا تھا‘ میرے آگے وہ کھڑا تھا اور اس کے سامنے ادویات کا انبار لگا تھا‘ میں اتنی دوائیں دیکھ کر حیران رہ گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’یہ دوائیں کون کون کھائے گا؟‘‘ وہ کائونٹر کی طرف مڑا اور ڈبیوں پر ہاتھ رکھ کر بولا ’’یہ اباجی کی دوائیں ہیں‘ یہ دل کے مریض ہیں‘ یہ امی جی کی ڈبیاں ہیں‘ یہ دل‘ دماغ اور گردوں کے امراض کی شکار ہیں‘ یہ بیوی کی دوائیں ہیں‘ یہ جوڑوں کے درد میں مبتلا ہیں۔میں بلڈ پریشر‘ کولیسٹرول اور یورک ایسڈ کا مریض ہوں‘ میں یہ دوائیں کھاتا ہوں‘ یہ خالہ اور پھوپھی جی کی دوائیں ہیں اور یہ میرے بیٹے اور بیٹی کی ڈبیاں ہیں‘ یہ الرجی‘
آدھے سر اور جلد کے امراض میں مبتلا ہیں‘‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا’’ میں نے ابھی چاچا‘ چاچی‘ چوکی دار‘ گھر میں کام کرنے والی مائی اور چھوٹے بچے کی دوائیں خریدنی ہیں‘ میں ان کے لیے بھی ہر مہینے ادویات خریدتا ہوں‘‘ میں نے پریشان ہو کر پوچھا‘ گھر کے سودے پر زیادہ پیسے خرچ ہوتے ہیں یا ادویات پر‘ وہ رکا‘ ہنسا اور بولا ’’دونوں برابر ہیں۔مجھے ہر مہینے جتنے پیسے گھر کے سودے کے لیے چاہیے ہوتے ہیں میں اتنی ہی رقم ہر ماہ ادویات پر بھی خرچ کرتا ہوں اور اس رقم میں ہر ماہ اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں‘‘ وہ بولا ’’تین وجوہات ہیں‘ دوائی کے لیے پہلے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے‘ ڈاکٹر کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے‘ پھر ہر ماہ ادویات کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور تیسرا ہر ماہ دوائوں میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے چناں چہ میں اگر آج بارہ ہزار کی دوائیں خریدوں گا تو اگلے ماہ یہ چودہ ہزار روپے کی ہو جائیں گی‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کرتے کیا ہیں؟‘‘وہ بولا ’’چھوٹی سی دکان چلاتا ہوں‘‘ میرا اگلا سوال تھا ’’کیا آپ اپنی آمدنی میں تمام اخراجات پورے کر لیتے ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’اللہ کا کرم ہے میرے پاس تین دکانیں ہیں‘ میں نے ان کا کرایہ ادویات اور علاج کے لیے وقف کر رکھا ہے‘‘ میں نے لمبا سانس لیا اور سیلزمین کے سامنے اپنی چٹ رکھ دی‘ میری فہرست میں بھی چودہ ڈبیاں تھیں۔آپ اگر پاکستانی ہیں اور آپ کا تعلق مڈل یا لوئر مڈل کلاس کے ساتھ ہے تو آپ کو یاد ہو گا آپ کے والدین جب کام کے بعد شام کے وقت گھر لوٹتے تھے
تو ان کے ہاتھوں میں فروٹ‘ مٹھائی اور ڈرائی فروٹ کے لفافے ہوتے تھے‘ میں نے بھی زندگی میں سب سے زیادہ اور سب سے اچھا فروٹ اپنے بچپن میں کھایا تھا‘ میرے والد روز شام کے وقت فروٹ لاتے تھے‘ ہماری پوری گلی میں یہ چلن تھا لوگ شاپنگ بیگز‘ لفافے اور ٹوکریاں لے کر گھر لوٹتے تھے اور بچے دہلیز پر کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرتے تھے لیکن آج کیا ہو رہا ہے؟آج ہر والد ادویات کا لفافہ لے کر گھر لوٹتا ہے‘ آپ کسی دن سروے کر لیں‘ آپ کو زیادہ تر لوگ دفتر‘ فیکٹری یا دکان سے نکل کر سیدھے میڈیکل اسٹور جاتے اور شام کو دوائی کی ڈبیاں لے کر گھر آتے دکھائی دیں گے‘ آپ کسی دن اسٹڈی کرا لیں آپ یہ جان کر بھی حیران رہ جائیں گے ہمارے ملک کے زیادہ تر لوگ ادویات کھاتے ہیں‘ میں اگر یہ دعویٰ کروں ہمارے 99 فیصد بالغ لوگ کوئی نہ کوئی گولی‘ کوئی نہ کوئی معجون‘ پھکی یا سیرپ پیتے ہیں تو کیا یہ غلط ہو گا؟جی نہیں یہ درست ہو گا‘ آپ کسی گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ادویات کا باقاعدہ ریک ملے گا‘۔آپ کو ہر گھر کے بجٹ میں ادویات کا کوٹہ بھی ملے گا‘ لوگ اب راشن کے ساتھ ساتھ ادویات کو بھی اپنے بجٹ میں شامل رکھتے ہیں‘ آپ کو ہر شخص کے فون یا ڈائری میں کسی نہ کسی ڈاکٹر کا نمبر اور ایڈریس بھی ملے گا اور آپ کو ہر دوسرا شخص اپنے دوستوں‘ اپنے کولیگز کو یہ کہتا ہوا بھی دکھائی دے گا ’’یار کوئی اچھا سا ڈاکٹر تو بتا دو‘
مجھے جسم کے فلاں حصے میں درد محسوس ہو رہا ہے‘‘ ہمارے ملک کی طبی حالت کیا ہے؟آپ اس کا اندازہ ان حقائق سے لگا لیجیے‘ پاکستان میں پہلے 60 سالوں میں صرف 27میڈیکل کالج بنے جب کہ اگلے بارہ سالوں میں ان کی تعداد 114 ہو چکی تھی‘ یہ تمام کالج ہر سال 14 ہزار ڈاکٹرز پیدا کرتے ہیں‘ 1990 میں ملک میں صرف 204اسپتال اور ایک ہزار بیسک ہیلتھ یونٹس تھے‘ آج ملک میں اسپتالوں کی تعداد 1167 اور بیسک ہیلتھ یونٹس ساڑھے پانچ ہزار ہو چکے ہیں‘ پاکستان 2000 تک ادویات امپورٹ کرنے والا ملک تھا لیکن یہ اب ادویات ایکسپورٹ کرتا ہے۔دنیا میں فارماسوٹیکل انڈسٹری بند ہو رہی ہے جب کہ پاکستان میں یہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہے‘ آپ کو پورے ملک میں کسی میڈیکل اسٹور کا مالک غریب نہیں ملے گا‘ یہ ایک دکان سے دوسری اور دوسری سے تیسری دکان کا مالک بنتا دکھائی دے گا‘ کیوں؟آپ نے کبھی سوچا!سیدھی بات ہے ہم من حیث القوم بیمار ہیں‘ہمارے اپنے شہر لالہ موسیٰ میں میرے بچپن میں صرف تین میڈیکل اسٹورزتھے اور ان پر بھی سارا دن مکھیاں ماری جاتی تھیں‘ میں آج جب شہر جاتا ہوں تو مجھے ہر گلی‘ ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی میڈیکل اسٹور ملتا ہے‘ آپ کو اپنے شہر میں بھی ہر محلے میں ڈاکٹر‘ کمپائونڈر یا میڈیکل اسٹور ضرور ملے گا‘ میں جب بھی یورپ یا امریکا جاتا ہوں تو مجھے دس دس کلومیٹر بعد فارمیسی کا بورڈ دکھائی دیتا ہے‘ یہ فارمیسیاں بھی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہیں‘
پہلے حصے میں اسکن کیئر‘ دانتوں‘ پائوں‘ بالوں اور ہاتھوں کی مصنوعات ہوتی ہیں۔آپ یہ تمام مصنوعات ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر خرید سکتے ہیں‘ دوسرے حصے میں ادویات ہوتی ہیں‘ مجھے آج تک ادویات کے سیکشن میں ایک وقت میں دو تین سے زیادہ خریدار دکھائی نہیں دیے‘ یورپ میں ’’میڈیکل فری‘‘ ہے‘ اسپتال بھی جدید ہیں اور ڈاکٹر بھی بہت پڑھے لکھے اور تجربہ کار ہوتے ہیں مگر آپ کو وہاں بہت کم ڈاکٹر ادویات لکھتے اور دیتے نظر آتے ہیں‘ یہ آپریشن کے لیے بھی مریض کو چھ چھ ماہ انتظار کراتے ہیں‘ آپ کو صرف ایمرجنسی میں رش نظر آتا ہے باقی اسپتالوں میں روٹین کا کام چلتا ہے اور مریض کو چار چار گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔سوال یہ ہے یورپ میں ادویات استعمال کیوں نہیں ہوتیں اور ہم راشن کی طرح دوائیں کیوں استعمال کرتے ہیں؟ یہ ایک سنجیدہ ایشو ہے اور ہمیں اب اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہو گا‘ ہمیں ماننا ہوگا ہم ایک بیمار قوم ہیں اور ہم ادویات کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتے‘ دوائیں اب ہمارے لیے راشن بن چکی ہیں‘ہم بیمار قوم کیوں بن چکے ہیں؟ اس کی چار وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ ہمارا کھانا اور پینا ہے‘ ہم تیل میں ڈوبی ہوئی خوراک کھاتے ہیں جب کہ ہمارے پانی میں بھی سیوریج اور فیکٹریوں کا ویسٹ شامل ہوتا ہے۔ہمارے دودھ‘ سبزیوں اور فروٹس میں بھی کیمیکل ہوتے ہیں‘ ہماری مٹھائیوں‘ ٹافیوں ‘ جیلیز اور مشروبات میں بھی کپڑے اور چمڑے کے رنگ ہوتے ہیں‘ ہم اپنی ضرورت سے زیادہ کھاتے بھی ہیں‘ آپ لوگوں کو کھاتے دیکھیں تو آپ کو ان پرترس آ جائے گا‘ دوسرا ہماری زندگی کے صرف دو مقصد ہیں‘ کھانا اور سونا‘ ہم اسے عیاشی سمجھتے ہیں‘ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں جہاں پیدائش‘ شادی اور انتقال تینوں ’’حادثوں‘‘ پر کھانا کھلایا جاتا ہے۔لوگ باہر سے گھر آ کر سیدھے بستر پر بھی گرتے ہیں‘ یہ کرسیوں اور صوفوں پر بھی سو جاتے ہیں اور یہ دفتروں میں بھی سیدھے نہیں بیٹھتے‘ کرسیوں پر نیم دراز ہو کر کام کرتے ہیں‘ سوم ہم لوگوں میں ورزش کا رجحان نہیں‘ آپ کو پارکوں میں بوڑھوں اور بیماروں کے علاوہ کوئی دکھائی نہیں دے گا۔پاکستان کے 80 فیصد اسکولوں میں گرائونڈز اور واش رومز نہیں ہیں‘ ہم بچوں کو فزیکل ٹریننگ نہیں دیتے اور آخری وجہ ملک میں سرکاری واش رومز نہیں ہیں اور اگر ہیں تو وہاں صابن کی سہولت نہیں ہوتی‘ ہمارے دفتروں اور گھروں کے واش رومز میں بھی صابن نہیں ہوتا لہٰذا لوگ ہاتھوں میں جراثیم لے کر پھرتے رہتے ہیں‘ ہمیں ہاتھ ملانے کی عادت بھی ہے‘ لوگ منہ سے سلام بعد میں کرتے ہیں اور اپنا ہاتھ پہلے آگے بڑھا دیتے ہیں چناں چہ ہم روزانہ دس بیس لوگوں کو بیمار کر کے گھر جاتے ہیں۔ہمیں اس صورت حال پر سوچنا ہوگا‘ ہمیں ایک بڑی سوشل چینج کی ضرورت ہے‘ ہم نے اگر یہ نہ کیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب حکومت کو ادویات کا راشن کارڈ بھی جاری کرنا پڑ جائے گا‘لوگوں کو خوراک کے ساتھ ساتھ دوائیں بھی دی جائیں گی‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ہم سب بیمار ہیں اور بیمار قوموں کو کسی حملے‘ کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یہ اپنی قبر خود کھودتی ہیں اور ہم یہ کھود چکے ہیں۔