اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مہمند ایجنسی کے ہزاروں افراد کو پاکستانی شہریت دینے کے خلاف اپیل خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کیلئے تو ہم مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں مگر اپنے شہریوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں۔
جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مہمند ایجنسی کے 6 ہزار سے زائد افراد کو پاکستانی شہریت دینے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ عدالت نے شہریت دینے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل خارج کرتے ہوئے شہریوں کو شناختی کارڈ سمیت تمام حقوق دینے کا حکم برقرار رکھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ ان شہریوں کو شہریت دینے پر آپ کا کیا اعتراض ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ درخواست گزار علاقے کا مَلک ہے اور متعلقہ افراد پاکستانی نہیں بلکہ افغانی ہیں۔
علاقے کا مَلک ہونے کا موقف اپنانے پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون میں مَلک یا سردار کی کیا حیثیت ہے، آپ جیسا سینئر پارلیمنٹرین وکیل اگر ’مَلک نظام‘ کاتحفظ کرے گا تو پاکستان کیسے چلے گا، آئین کھول کر بتائیں مَلک اور سردار کا آئین میں کہاں ذکر ہے، روہنگیا اور برما کے مسلمانوں کیلئے تو ہم مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں مگر اپنے شہریوں کو حقوق دینے کے لیے تیار نہیں، کیا ہم بھی روہنگیا مسلمانوں کی طرح اپنے شہریوں کی شہریت ختم کردیں، معاملے پر آئی ایس آئی نے بھی اپنی رپورٹ دی لیکن اس رپورٹ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میرا موقف یہ نہیں کہ انھیں مُلک سے نکالا جائے، بلکہ میں شناختی کارڈ کے اجرا کے فیصلے کیخلاف آیا ہوں۔ تاہم عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل خارج کرتے ہوئے شہریوں کو شناختی کارڈ سمیت تمام حقوق دینے کا حکم برقرار رکھا۔