آل پارٹیز کانفرنس میں مسئلہ کشمیراور بھارت کے جارحانہ طرزعمل کے خلاف قومی اتفاق رائے کے بعد عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ اور وزیراعظم نوازشریف سے استعفیٰ کے مطالبے کی ٹائمنگ اہم ہے ،24 گھنٹے میں ایسا کونسا واقعہ رونما ہوا کہ عمران خان اور ان کی جماعت 180 کے زاو یہ پر حکومت مخالف محاذ پر ڈٹ گئے ۔
محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ملک کو درپیش حالات کو ایشو بنا کر فیصلوں کا اختیار اسلام آباد سے کہیں اور شفٹ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ گھیراؤ، جلاؤ اور شہروں خصوصاً اسلام آباد کی بندش کا اعلان کر کے حکومت تو کجا پارلیمنٹ پر بھی اثرانداز نہیں ہو سکے ، اس کا اندازہ انہیں اپنے 126 دن کے دھرنے میں بھی ہو چکا ہے ۔ حالات کی نزاکت اور سنگینی کو جس طرح عمران خان اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہی حساسیت عوامی سطح پر ان کے اپنے خلاف بھی جا سکتی ہے ،وہ ایک بہت بڑا سیاسی رسک لے رہے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ پر اگر عمران خان کی نظر ہوتی تو پارلیمنٹ کے اجلاس کابائیکاٹ ہرگز نہ کرتے ، بائیکاٹ کے آپشن کو بروئے کار لانے کے بجائے عمران خان کو وزیراعظم نوازشریف کی موجودگی میں اپنے خیالات اور تحفظات کا اظہار کرنا چاہئے تھا ،وہ اپنے جلسوں میں وزیراعظم نوازشریف کے بھارت کیخلاف مبینہ نرم روئیے کی بات کرتے ہیں کیا وجہ ہے کہ وہ وزیراعظم نوازشریف کا سامنا کرنے سے گھبرارہے ہیں ۔ آج کے حالات کا جائزہ لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ آج پاکستان کو زیادہ یکجہتی و اتحاد کی ضرورت تھی لیکن کونسی ایسی وجوہات ہیں کہ عمران خان ملک میں پیدا شدہ اتحاد کو انتشار اور یکجہتی کی فضاکو محاذ آرائی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اس کا نوٹس اہل سیاست ہی کو نہیں خود ان کی جماعت کو بھی لینا چاہیے تھا۔
ایسی مصدقہ اطلاعات ہیں کہ جس اجلاس میں عمران خان مذکورہ فیصلے کر رہے تھے یا کروا رہے تھے اس میں بھی بعض ذمہ داروں نے اس فیصلہ پر اپنے انداز میں اختلاف کیا لیکن عمران خان اسے بھی ماننے کو تیار نہ تھے ۔ اس میٹنگ میں شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے جنہوں نے ایک روز قبل اے پی سی میں وزیراعظم کے جنرل اسمبلی سے خطاب کو جامع قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایسا کوئی عمل نہیں کریں گے کہ دشمن یہ سمجھے کہ ہمارے درمیان کوئی تفریق پیدا ہو گئی ہے ، لیکن عمران خان کا یہ اعلان ان کی اپنی جماعت کے لیے بھی امتحان بنتا نظر آ رہا ہے جو رائیونڈ کے کامیاب اجتماع کی ابھی خوشیاں منا رہے تھے ۔
حکومت کو اس امر کا جائزہ لینا پڑے گا کہ اس مرحلہ پر وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیونکر ہو رہا ہے اور حکومت کو بھی اب تک کی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے کہ کچھ امور پر ڈائیلاگ کے ذریعے معاملات طے پا سکتے تھے لیکن ضد کے مظاہرہ نے اس سطح پر لاکھڑا کیا ہے کہ کوئی بھی لیڈر اُٹھ کر کسی بھی نازک صورتحال پر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کر ڈالتا ہے ۔