انقرہ (ویب ڈیسک) ضرورت پڑی تو مدد ہر حال میں کریں گے، ترک صدر طیب اردگان نے دبنگ اعلان کر دیا، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ ان کا ملک لیبیا کی قومی وفاق حکومت کی فوجی مدد کا پابند ہے۔ ضرورت پڑی تو لیبیا کی مزید فوجی مدد کریں گے ۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا ہم 2022 سے ہر سال ایک آبدوز تیار کرینگے اور 2027 تک ہماری تمام چھ آبدوزیں بحریہ کے لیے خدمات فراہم کرنا شروع کردیں گی۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا ہے کہ ترکی اور لیبیا کے درمیان طے پانے والا معاہدہ غیر مددگار اور اشتعال انگیز ہے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ایک بار پھر یورپ کے سامنے شامی پناہ گزینوں کا کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم اس مربتہ اُن کی توپوں کا رُخ خاص طور پر یونان کی جانب ہے۔ سمندری سرحدوں اور حقوق کے پس منظر میں ترکی اور یونان کے درمیان تعلقات میں نمایاں کشیدگی دیکھی جا رہی ہے بالخصوص انقرہ کے لیبیا میں وفاق کی حکومت کے ساتھ سمندری معاہدے پر دستخط کے بعد مذکورہ کشیدگی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایردوآن نے اتوار کی شام استنبول میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ اُن کا ملک شام سے پناہ گزینوں کے نئے ریلے کو اپنی سرزمین پر نہیں کھپا سکتا۔ ترکی کے صدر نے خبردار کیا کہ شمال مغربی شام میں تشدد کا سلسلہ نہ رُکا تو پناہ گزینوں کی نئی لہر یورپی ممالک بالخصوص یونان کو متاثر کرے گی۔ترکی اس وقت تقریبا 37 لاکھ شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جو دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ حالیہ عرصے میں شامی حکومت کی جانب سے بم باری میں شدت آنے کے بعد شام کے صوبے ادلب سے پناہ گزینوں کے نئے ریلے کے ترکی پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ادلب صوبے میں تیس لاکھ شامی رہ رہے ہیں۔
طیب اردگان کے مطابق 80 ہزار کے قریب افراد ادلب سے ترکی کا رخ کرنے کے لیے حرکت میں آ چکے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس تعداد میں اضافہ ہو گا اور ایسی صورت میں ترکی مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ انہوں نے باور کرایا کہ “دباؤ کے جس بدترین اثر کا ہمیں سامنا ہو گا ،،، اس کو یورپ کے تمام ممالک بالخصوص یونان بھی محسوس کرے گا”۔ ترکی کے صدر کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک ادلب پر روسی بم باری روک کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ترکی کا ایک وفد شام کی صورت حال پر بات چیت کے لیے پیر کے روز ماسکو جائے گا۔ ایردوآن اس سے پہلے دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر ترکی کو پناہ گزینوں کی میزبانی کے حوالے سے مزید سپورٹ نہ ملی تو مہاجرین کے لیے یورپ جانے کا “دروازہ” کھول دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ترکی اس وقت اُن منصوبوں کے لیے بین الاقومی سپورٹ حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے جن کا مقصد شمال مشرقی شام کے ایک حصے میں دس لاکھ شامیوں کو بسانا ہے۔ ترکی کی فوج اور اس کے حلیف گروپوں نے رواں سال اکتوبر میں ہونے والے فوجی آپریشن کے نتیجے میں مذکورہ علاقے کا کنٹرول شامی کرد پیپلز پروٹٰیکشن یونٹس تنظیم سے چھین لیا تھا۔ تاہم ترکی کے ان منصوبوں کو یورپ کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ ترکی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ ہزاروں کرد شامیوں کی جانب سے خالی کیے جانے والے علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن نے بدھ کے روز جنیوا میں پناہ گزینوں سے متعلق ایک کانفرنس کے اختتام پر اعلان کیا تھا کہ عالمی ممالک نے پناہ گزینوں کی سپورٹ کے لیے 33 ارب ڈالر سے زیادہ دینے کا عزم کیا ہے۔ تاہم ایردوآن نے اس رقم کو ناکافی قرار دیا۔