تحریر : لقمان اسد
واقعتاً انسان کیا اس قدر بے صبرا، ناسمجھ، کمزور دل اور کمزور عقل ہی ثابت ہوا ہے کہ خود غرضی، بے حسی اور دولت حرص اور ہوس اس کا کام تمام کیے دیتی ہے؟ قوموں کی ذمہ داری بسا اوقات ان پر کیونکر آن پڑتی ہے واللہ جوجانتے تک نہیں کہ یہ کتنا بڑا بوجھ، کتنی بڑی ذمہ داری اور کس درجہ احتیاط طلب فریضہ ہے وطن عزیز میں ایسے ہی لوگوں پر یہ ذمہ داری آن پڑی ہے۔
سیاست کے کھیل نے جنہیں ککھ پتی سے پہلے لکھ پتی بنایا اور بعد میں لکھ پتی سے کروڑ پتی وہ ہوئے اور آج پھر جن کی دولت کاکوئی حساب تک نہیں بے بہا سرمایہ جن کا ملک کے باہر پڑا ہے جس کی گنتی وہ اب خود بھی نہیں بتا سکتے اذیت ناک عمل یہ ہے کہ وہاں وہ خوشی سے ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں کیونکہ ہر ملک میں پاکستان جیسی موجیں،رعائتیں اور چھوٹ ہرگز نہیں ہوا کرتی ناانصافی ،لاقانونیت اور غریب اور امیر کا فرق محض ہمارے معاشروں میں ہی ممکن ہے کہ جدھر تین ماہ تک شہر اقتدار میں دھرنا دینے والے اور عوامی حقوق کی لڑائی لڑنے کا دعویٰ کرنے والے پھر یکسر بھول ہی جاتے ہیں کہ عوام پر کیا بیت رہی اور عوام کس حال میں ہیں۔
سیاست کے ڈاکٹر کو جواں سال بیٹے کی لڑائی نے نڈھال کررکھا ہے ایک طرف جوانی کا خمار اور دوسری طرف بزرگی اور عمر بھر کی خطائوں کا ملال جو کہ ایک فطری امر ہے بہت عرصہ قبل ایک دوست نے ایوان صدر کی صورتحال سے آگاہ کیا تھا کہ جب آصف علی زرداری بطور صدر وہاں مقیم تھے برطانیہ کے اخبارات میں بھی اس راہنما کے متعلق کبھی لکھا کہ ذہنی طور پر اپ سیٹ ہیں صدارت کے دنوں میں دوبئی علاج کی غرض سے گئے تو واقفان حال نے یہی بتایا کہ ڈپریشن کا وہ شکار ہیں۔
اس کے باوجود مگر میاں صاحبان کو مبارک ہو کہ ان کی مشکل کے دنوں میں وہ ان کا مرض دیکھنے ان کے شاہی محل تک پہنچے اور اچھا ہی نسخہ تجویز کیا گو اس ملاقات میں پنجاب کی عوام کے اعلی خدمتگار میاں شہباز شریف نے ان کو اپنی نبض دکھانے سے محروم رہے کہ بلڈ پریشر کو کنٹرول رکھنا شاید مریض اور ڈاکٹر دونوں کیلئے ممکن نہ ہوپاتا کیونکہ لاہور کی شاہراہوں پر گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کی تنما ئے بے تاب خادم اعلی کے دل میں بہت عرصہ جاگتی رہی لوٹ مار پر مفاہمت تو وہ کب کی کرچکے اب احسان مندی کا بوجھ بھی گویا میاں صاحبان اٹھائے پھرتے ہیں عمران خان کی شادی پر کسی کو اعتراض کیونکر ہو سکتا ہے۔
یہ ان کی ذاتی زندگی ہے اور ذاتی زندگی کے فیصلوں میں انسان آزاد ہی تقریباً ہوتا ہے مگر کیا اب ملک میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں کہ وہ ابھی تک ہنی مون منانے میں مصروف ہیں سیاست دانوں کے ہاتھ سیکھیل جیسے نکل چکا مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے یہ نظام مکمل طور پر ٹھکانے لگنے کو ہے جمہوریت، جمہوریت کی صدا لگانے والوں اور قوم کی رہبری کرنے والوں نے فریب مکاری اور لوٹ مار کو ہی عوامی خدمت کا نام دیا انجام جس کا یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ان سے بدظن ہے ادارہ تباہ حال اور ملک کی معشیت کا واحد اور اکلوتا سہارا آئی ایم ایف کا قرضہ ہے بے روز گاری، بدامنی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے محکموں کے وزراء دولت سمیٹنے کے علاوہ کبھی کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے پاتے اس لیے کہ ان کی لیڈر شپ خود اسی بیماری اور مرض میں مبتلا ہے جو بھی حکومت آتی ہے جو بھی مسئلہ اس کے سامنے درپیش ہوتا ہے وہ اس مسئلے کے حل کا ٹائم فریم اپنے دور حکومت کے بعد کے برسوں کا عوام کو بتاتی ہے۔
جنرل راحیل شریف ان سب حالات سے بے خبر تو نہ ہونگے تماشہ اس قوم کے ساتھ بہت ہوچکا دنیا واحد اسلامی ایٹمی ملک کا مذاق تک اُڑاتی ہے وزارت خارجہ جیسی اہم ترین وزارت اب تک اس لیے خالی پڑی ہے کہ ن لیگ میں کوئی حنا ربانی کھر ہے اور نہ ہی کوئی شاہ محمود قصوری کیا مزید ظلم 20کروڑ عوام کا ابھی مقدر ہے ؟کوئی پاکستان کی دھرتی پر ایسا نہیں،کوئی اس دھرتی کا بیٹا جو ذاتی اغراض ومقاصد پر لات مارے اور یہ اعلان کرے کہ اب اس دھرتی پر وہ انصافی کسی کے ساتھ نہیں ہونے دیگا قائداعظم محمدعلی جناح جیساعظیم رہنمااب اس قوم کامقدرشاید کبھی نہ ہو، کوئی نیلسن منڈیلا،کوئی چی گویرا بھی نہ سہی، کوئی اناہزارے یا کوئی ہندوستان کے کیچری وال جیسا ہی اُٹھ کھڑا ہو اور اس دھرتی کے باسیوں کو ترقی کی راہ اور منزل سے آشنا کر دے۔
تحریر : لقمان اسد