سفارت کاری کا وسیع تجربہ رکھنے والی ایک اہم شخصیت سے دو روز قبل لنچ پر ملاقات ہوئی۔اس شخصیت کا مسئلہ کشمیر کی تاریخ اور اس مسئلہ پر اب تک ہونے والی سفارت کاری کا علم بہت وسیع ہے۔ مذکورہ شخصیت نے کہا کہ بھارت نے بڑی عیاری اور مہارت سے مسئلہ کشمیر کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ نوّے کی دہائی میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان پس پردہ سفارت کاری عروج پر تھی نیاز اے نائیک کی قیادت میں ”نمرانا“ کے نام سے پس پردہ سفارت کاری ہو رہی تھی اس سفارت کاری کے نتیجے میں پاک بھارت مذاکرات شروع ہوئے بھارت نے بڑی ہوشیاری سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ اس بات چیت کا نام جامع مذاکرات رکھا گیا۔ ان جامع مذاکرات میں سیاچن‘ پانی کا مسئلہ‘ سیکیورٹی‘ دہشت گردی اور رمسئلہ کشمیر کو الگ الگ کردیا گیا۔ حالانکہ سیاچن پانی کا مسئلہ‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیکیورٹی کے ایشو کا تعلق مسئلہ کشمیر سے ہے اگر کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت ہوتی ہے اور یہ مسئلہ حل ہوتا ہے تو پھر باقی مسائل جن میں سیاچن‘ پانی کا مسئلہ‘ سیکیورٹی وغیرہ کے مسائل شامل ہیں ختم ہو جاتے ہیں۔
نوازشریف صاحب کی دوسری حکومت میں 1997ءسے 1999ءتک جامع مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔ پنجاب ہا¶س اسلام آباد میں ان جامع مذاکرات کا آغاز ہوا۔ مذاکرات کے بعد جب بھارتی وفد کے سربراہ سے پوچھا گیا کہ کیا کشمیر کے مسئلہ پر کوئی پیشرفت ہوئی تو موصوف نے کہاکہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت ہوئی ہے۔ جب ان جامع مذاکرات کا دوسرا دور نئی دہلی میں ہوا تو اس خاکسار کو نئی دہلی جانے اور جامع مذاکرات کے دوسرے دور کو نوائے وقت کے لئے کور کرنے کا موقع ملا۔ مذاکرات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل خارجہ امور شمشاد خان نے میڈیا کو بریفنگ دی اور بتایا کہ کشمیر سمیت سیاچن‘ پانی کے مسئلہ اور دوسرے امورپر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ جب بھارتی ترجمان نے مذاکرات پر بریفنگ کی تو اس نے کشمیر پر بات چیت کو زیادہ اہمیت نہ دی اور کہاکہ کشمیر پر بھی تبادلہ خیال ہوا ہے۔ جامع مذاکرات شروع ہونے کے بعد بھارت کی کوشش ہوتی تھی کہ کشمیر کے مسئلہ کو سب سے آخر میں زیر بحث لایا جائے۔ بھارت اس وقت سے اس نظریہ کو تقویت دے رہا تھا کہ پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی کے لئے اقدامات ہونا چاہئیں اس دور میں بھارت نے تجارت‘ ثقافتی وفود اور ارکان پارلیمنٹ کے وفود کے تبادلوں پر زور دینا شروع کردیا۔ بھارتی سفارت کاروں کا اس زمانے میں وضاحتی یہ ہوتا تھا کہ جب پاکستان اور بھارت میں اعتماد کی فضاءقائم ہو جائے گی تو پھر سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ 1998ءمیں وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان کے دورے پر آئے۔ وہ لاہور آئے تو ان کے خلاف سخت احتجاج بھی ہوا۔ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کے نتیجے میں اعلان لاہور سامنے آیا۔ اعلان لاہور سے یہ امید ہو چلی تھی کہ پاکستان بھارت تعلقات میں اب بہتری آئے گی کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے کوئی ٹھوس پیش رفت ہو گی۔ سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی جب لاہور سے امرتسر پہنچے تو بھارتی میڈیا نے ان سے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے انہوں نے پاکستان کے ساتھ کیا کمٹمنٹ کی ہے تو واجپائی نے جواباً کہاکہ کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت سے مراد کشمیر کے اس حصہ پر بات چیت ہوئی ہے جو پاکستان کے قبضہ میں ہے۔
اعلان لاہور کے کچھ عرصہ بعد کارگل کی جنگ شروع ہوگئی واجپائی نے اس جنگ کے بارے میں اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے صدر کلنٹن کی مداخلت سے ہونے والی بات چیت میں شکوہ کیا کہ میں نے تو پاکستان کے ساتھ امن عمل شروع کیا تھا لیکن آپ نے میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ بارہ اکتوبر 1999 ءکو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور جنرل مشرف کی قیادت میں فوجی حکومت قائم ہوئی۔ پھر نائن الیون ہو گیا۔ نائن الیون نے دنیا کو بدل دیا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ بھارت نے بڑی ہوشیاری سے کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے اسے امریکہ سے سرحد پار دہشت گردی قرار دلوا دیا۔ جنرل مشرف پر اس قدر دبا¶ بڑا کہ انہوں نے کشمیر پر ”آ¶ٹ آف دی باکس“ اقدامات تجویز کر دیئے۔ کئی عشروں سے بھارتی جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیریوں نے اس آ¶ٹ آف دی باکس حل کو کشمیریوں کے ساتھ غداری قرار دیا۔
بھارت میں کانگریس کی حکومت نے کوشش کی مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ نریندر مودی کی حکومت آئی تو اس نے کشمیر میں ظلم اور جبر کا ایک نیا دور شروع کیا۔ بات طویل ہو گئی ہے۔ کشمیر کی تاریخ اور پس منظر سے واقف اہم شخصیت نے بتایا کہ مظفر وانی کی شہادت کے بعد مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ کشمیری نوجوانوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس مسئلہ کو پھر زندہ کر دیا ہے۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا کی قیادت میں حال ہی میں بھارتی ٹیم نے کشمیر کا دورہ کر کے بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر پر جو رپورٹ دی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ کشمیری نوجوان بھارتی فوج کے جبر اور ظلم سے آزاد ہو گئے ہیں وہ اب کھل کر بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے لگے ہیں۔ وہ بھارتی فوج سے اسلحہ چھین کر اس کے خلاف لڑنے لگے ہیں۔
مذکورہ شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس شخصیت کا کہنا تھا کہ پاکستان اور کشمیر میں بعض لیڈر مایوسی کا شکار ہیں لیکن کشمیر کی آزادی کے لئے مقبوضہ کشمیر‘ پاکستان اور آزاد کشمیر نئی نسل لڑے گی۔ یہ نئی نسل جو پاکستان کشمیر امریکہ اور یورپ میں موجود ہے۔ بھارتی جبر کے دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے لئے سوشل میڈیا کو م¶ثر طور پر استعمال کر رہی ہے یہ نسل بہت باصلاحیت ہے۔ پاکستان کو بیرون ملک پاکستانی اور کشمیری نوجوانوں کو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر م¶ثر انداز میں اٹھانے کے لئے اس نئی نسل کو استعمال کرنے کی حکمت عملی بنانا ہو گی۔ یہ نسل پاکستان اور کشمیر کا اثاثہ ہے اسے استعمال کر کے کشمیر کی آزادی کی منزل کو قریب تر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سفارتخانے اور ان سے وابستہ سفارت کار اس سلسلے میں کچھ نہیں کر رہے۔