تحریر : فرحین ریاض
کسی بھی معاشرے کے افراد کے طرزِ زندگی یا راہ عمل جس میں اقدار ، عقائد ، ر سم ورواج اور معمولات شامل ہیں ثقافت کہلاتے ہیں، ثقافت ایک مفہوم رکھنے والی صطلاح ہے اس میں وہ تمام خصوصیات ( اچھائیاں اور برائیاں ) شامل ہیں جو کہ کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہیں دنیا میں انسانی معاشرے کا وجود ٹھوس ثقافی بنیادوں پر قائم ہے انسان ثقافت و معاشرہ لازم و ملزوم ہیں ، ہم ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے ، ثقافت کے اندر انسانی زندگی کی تمام سر گرمیاں خواہ وہ ذہنی ہوں یا مادی ہوں شامل ہیں سی سی کون کا کہنا ہے کہ ” انسان کے رہن سہن کا وہ مجموعہ جو سیکھنے کے عمل کے ذریعے نسل در سنل منتقل ہوتا رہا ہے
ثقافت کہلاتا ہے ہر معاشرے کی ثقافت ہوتی ہت لیکن علاقائی یا مقامی اثرات کی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، ثقافت ہماری زندگیوں میں اسطرح شامل ہوجاتی ہے کہ ہم شعوری طور پر محسوس نہیں کرتے مگر آج کل کی نوجون نسل پاکستان کی ثقافت سے بالکل ناواقف ہیں وہ صرف اجرک اور ٹوپی کو ہی ہماری ثقافت سمجھتی ہے، سندھی ٹوپی پہن کر گلہ میں اجرک ڈال کر سندھی رقص میںلڑکی لڑکے کی تفریق بھول کر کلچر ڈے منانے کو ثقافت نہیں کہتے۔
ثقافت ان لوگوں کا اندازے زندگی ہے جو مخصوص جگہ یا مقام پر اکھٹے رہتے ہوں ہر معاشرہ اپنی ژقافت کے مطابق ہی امنے افراد کی تربیت کرتا ہے مثلاًبچوں کی تربیت کے سلسلے میں انہیں کچھ کام کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ، جبکہ کچھ کاموں سے روکا جاتا ہے ، معاشرے میں رہتے ہوئے اس پر عمل کرنے والے کو اچھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو برا کہا جاتا ہے اسطرح اچھائی اور برائی کے تصورات انسانی ذہن میں بچپن سے ہی نقش ہوجاتے ہیں اور وہ لاشعوری طور پر بھی انہی اصولوں کو اپنائے رکھتا ہے جس کا اثر اس کی شخصیت پر اچھا پڑ تا ہے ۔
ثقافت ایک ایسا مرکب ہے جس میں علم و فن ، عقائد و اقدار ، رسم ورواج اور دوسری وہ تمام صلاحیتیں شامل ہیں جو ایک فرد میں معاشرے کا ممبر ہونے کی حیثیت سے پائی جا تی ہیں ”ثقافت کو نظام کردار یا معاشرتی معیار کا نظام بھی کہا جاتا ہے یہ معاشرتی معیارہمیں زندگی میں رہنے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں بلکہ ہی ہماری رہنمائی بھی کرتے ہیں مثلاً مختلف موقعوں پر ہمارا رویہ کیا اور کیسا ہونا چاہیئے ! گھر میں اور گھر کر باہر نکلتے وقت لباس کے سلسے میں کیا خیال رکھنا چاہیئے ! شادی یا غمی کے موقع پر ہمیں کس قسم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے ، جب لوگوں کے درمیان مذہب ، رسومات ، خاندان اور رہن سہن یکسانیت ومماثلت ہوں تو وہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور مل جل کر رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں کسی ثقافت کا ظہور پزیر ہونا ایک تاریخی عمل ہے جو کئی صدیوں پر محیط ہوتا ہے
جس طرح انسانی درجہ بدرجہ ترقی کرکے ایک منظم معاشرتی زندگی تک پہنچا اسطرح ثقافت بھی انسان کے ساتھ قدم بہ قدم ترقی کرتی ہے ابتداء میں انسان کا ذریعہ معاش شکار تھا اور وہ شکار کی تلاش میں خانہ بدوشی کی زندگی گزارتا تھا ، اس دور کے طرز زندگی کو ہم خانہ بدوشی ثقافت کا نام دیتے تھے اس وقت ضروریاتِ زندگی محدود تھی خوراک حاصل کرنااور قدرتی آفتوں اور خطرناک جانوروں سے خود کو محفوظ رکھنا ان کی زندگی کا مقصد تھا ، وقت گزرنے کے ساتھ انسان نے کھیتی باڑی کی طرف توجہ دی اور زرعی معیشیت اپنا کر ایک جگہ رہنے کو ترجیح دی اس دور کی ثقافت کو ہم زرعی ثقافت کا نام دیتے ہیں ، ترقی کی اس راہ پر انسان نے صرف زراعت پر انحصار نہیں کیا
بلکہ اس نے آہستہ آہستہ صنعتیں لگانی شروع کیں صنعتوں کا قیام عموماً شہری بادی کے قریب عمل میں آیا روزگار کے مواقع بڑھے تو آبادی شہروں کی طرف منتقل ہونے لگی ، اس طرح شہری ثقافت وجود میں آئی یہاں مختلف مسلم اقوام آکر آباد ہوئیں ان میں سے ہر ایک کی الگ ثقافت تھی جبکہ مقامی طور پر ہر علاقے کی ثقافت پہلے سے موجود تھی اس طرح اسلامی تہذہب و ثقافت نے مل کر ایک نئی ثقافت بنائی جس کو آج ہم” پاکستانی ثقافت” کا نام دیتے ہیں
پاکستان کے قیام کا مقصد ایک ایسی ریاست قائم کرنا تھا جہاں مسلمانان ہند امنے یمدن اور ثقافت کی حفاظت کرسکیں یہ مسلم قوم بعد میں پاکستانی قوم کہلانے لگی اس کے” کلچر یا ثقافت” کو” پاکستانی ثقافت” کا نام دیا گی سرزمین ِ پاکستان کو فخر حاصل ہے کہ یہاں دنیا کی قدیم اور مہذب ترین انسانی تہذیبوں نے جنم لیا جنھیں آج ”سواں تہذیب”، ”وادیِ ء سندھ کی تہذیب” اور ”گندھارا تہذیب ”کے نام سے جانا جاتا ہے
سواں تہذیب” راولپنڈی سے ١٥ کلومیٹر کے فاصلے پر پوٹھوار کے علاقے میں دریا ئے سواں کے کنارے پتھر عہد میں انسانی تہذیب کے آثار ملے ہیں یہ وہ عہد تھا جب انسان غاروں میں رہتا تھا اور پتھروں یا اس سے بنے اوزاروں اور ہتھیاروں سے شکار کرتا تھا پتھری دور کے بعد کھیتی باڑی کا دور آیا زراعت ان سب کی مشترکہ خصوصیات تھی اس دور کے انسان گیہوں اور دالیں اگاتے تھے اور غاروں کے بجائے مٹی کے جھونپڑیوں میں رہتے تھی ، مٹی کے پکے برتن بناتے اور ان پر نقشے نگار کرتے تھے ، یوں تہذیب کا سفر جاری رہا اور انسان حجری دور سے نکل کر زرعی دور میں آیا یعنی دیہی ثقافت تک پہنچ گیا
وادیِ ء سندھ کی تہذیب” سواں کے علاوہ وادی ء سندھ کی تہذیب
٠٠ ہزار سال پرانی تہذیب ہے ،یہ مصر اور عاق کی تہذیب کی ہم عصر تہذیب تھی ، وادیء سندھ کی تہذیب کے آثار صوبہ پنجاب ، سندھ اور سرحد تک پھیلے ہوئے ہے اس تہذیب کے واضح نشانات ہڑپہ، (ضلع ساہیوال)اور مونجودڑو (ضلع لاڑکانہ) سے ملے ہیں اس شہر سے کھنڈرات کے علاوہ ایسی چیزیں ملی ہیں جو اس زمانے کی تہذیب و تمدن ، طرز زندگی اور مہذہب پر روشنی ڈالتی ہیں ۔ مثلاً مٹی کے برتن ، کھلونے ، تانبے کی مصنوعات، اوزار، مجسمے ، مہریں اور زیورات وغیرہ ان تمام چیزوں کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے کے باشندے اعلیٰ ذوق کے مالک تھے ، ان مجسموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ مختلف مظاہر قدرت اور پتھروں کو پوجتے تھے
گندھارا تہذیب ” مونجودڑو اور ہڑپہ کے بعد ہمارے ثقافی ورثے میں گندھارا کی عظیم تہذیب بھی شامل ہے ، تیسری صدی قبل مسح میں یہ تہزیب پاکستان کے شمال میں چارسدہ ، سوات ، چترال ، دیرمالا کنڈ ، صوابی اور پوٹھوار کے علاقوں میں بدھ مت کا عظیم گہوارہ تھی یہ علاقہ کچھ عرصے ایرانی حکمرانی کے زیراثر رہا سکندر اعظم ایران فتح کرتا ہوا اس علاقے تک آیا اور اُس کے سپاہی مستقل طور پر یہیں آباد ہوگئے پھر یونانیوں کی آمد شروع ہوئی بدھ مذہب کا اس علاقے میں کافی زور تھا مہاتما بدھ کے انتقال کے بعدان کے مجسمے بڑی تعداد میں بنائے گئے سنگ تراشی کے اس فن کو پوری دنیا میں سراہا گیا
گندھارا کا ثقافتی مرکز ٹیکسلا شہر تھا یہ شہر علم و فن کا گہوارہ تھا یہاں علمی درسگاہیں تھیں اور دور دراز مقامات سے کئی طالبِ علم اس شہر کا رخ کرتے تھے، گندھارا کا علاقہ صدیوں سے بیرونی حملہ آوروں کے زیر تسلط رہا اس لئے گندھارا آرٹ پر مقامی اثرات یونانی ، ایرانی اور رومی اثرات بکثرت موجود ہیں پاکستانی ثقافت کی قدامت جاننے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری یہ سر زمین کتنی قدیم ہے یہاں ہندوؤں ، بدھ مت اور پھر مسلمانوں نے حکومت کی اس ثقافت میں عرب، ایرانی، تورانی اور مغلوں کے اثرات کے ساتھ مقامی اثرات ملتے ہیں ، اس طرح ہمارے لباس ، خوراک، رہن سہن غرض زندگی کے ہر شعبے میں ملی جلی ثقافت نظر آنے لگی ۔
فنون” پاکستان کی ثقافت میں فنون کو اپنی قدامت کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل ہے ، خاص طور پر فنِ تعمیر کو ، ان فنون کے پیچھے پزاروں سالوں کی روایات کار فرما ہیں فن تعمیر” موہنجودڑو اور ٹیکسلا کے کھنڈرات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے لوگ آج سے ہزاروں سال پہلے بھی فن تعمیر کے لحاظ سے نہایت ترقی یافتہ تھے ، گندھارا طرزِ تعمیر اور ورومی طرزِ تعمیر نے ساری دنیا سے خراج تحسین وصول کیا دستکاری” دھاتوں سے ہر برتن ، زیورات اور الات بنانے کا فن ہمارے خطے میں رہنے والے افراد نے آج سے پانچ ہزار سال پہلے ہی سیکھ لیا تھا ، ہڑپہ اور مونجوداڑو کے لوگ دھاتوں کو پگھلا کر ان سے زیورات ، مجسمے اور پہبنانے کے فن میں ماہر تھے
تصویر سازی ” تصویر سازی کا فن قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے ہندوؤں میں انسانوں ، دیوی دیوتاؤں اور جانوروں کی تصویر کشی کا فن عروج تھا، لیکن مسلم عہد میں اس میں کچھ تبدیلی آئی اشکال کی جگہ قدرتی مناظر ، پھولوں اور مختلف رنگین ڈیزائنوں نے لے لی (کیونکہ اسلام میں جانداروں کی تصویر کشی کی ممانعت ہے ) لکڑی پر کندہ کاری قدیم زمانے سے ہوتی آرہی ہے لاہور کی قالین بانی کی لکڑی پوری دنیا میں مشہور تھی اب بھی چاروں صوبوں نے اس فن کو زندہ رکھا ہوا ہے
خوراک و لباس ” خوراک ولباس اور طرزِ معاش کسی بھی ثقافت کے نہایت اہم پہلو ہوتے ہیں ۔ان اہم پہلوؤں پر کئی عناصر اثر انداز ہوتے ہیں مثلاً مذہب ، معاشی حالات ، موسم اردگرد کا ماحول وغیرہ بنادی طور پر پاکستان میں عام لوگوں کی روزمرہ کی خوراک نہایت سادہ ہے گندوم کی روٹی اور چاول کے ساتھ دال سبزیاں زیادہ تر کھائے جاتے ہیں ، پینے کے لیے پانی ، لسی اور قہوہ یا چائے استعمال ہوتا ہے ، البتی مختلف تقریبات یا شادی بیاہ کے موقعہ پر خاص کھانوں کا استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح موسم کے بدلتے ہی کچھ خاص کھانوں کا استعمال ہوتا ہے
رسم ورواج ”رسم ورواج ہر ثقافت اپنے مخصوص علاقوں اور ماحول میں پروان چڑھتی ہے اس لیے ہر ثقافت میں کچھ رسم ورواج دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں ، دنا میں کوئی بھی ثقافت دنیا سے کٹ کو الگ رہ کر ترقی نہیں کرسکتی باہمی رابطے اور جدید ذرائع ابلاغ کی وجہ سے مختلف ثقافت ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم صحیح طور پر اپنی ثقافت کو سمجھیں اور اس کا احترام کریں اس کو صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بنا ئیں
تحریر : فرحین ریاض (کراچی)