تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری
افریقہ کے ایک ملک آرتریا میں مردوں پر لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک ساتھ دو عورتوں سے شادی کریں ۔اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ عورتوں کی ولادت بنسبت مردوں کے زیادہ ہے ۔مردوں کی اموات بسبب غربت اور بیماریوں کے سبب واقع ہورہی ہے۔ایسے میں عورتیں بے چین ہیں کہ ان کو تلاش کرنے پر بھی رشتے نہیں مل رہے۔دوسری شادی کی بسااوقات سخت ضرورت و حاجت ہوتی ہے کہ کسی دکھی و بے روزگار و نادار کا سہارا بناجاتاہے یا لڑکیوں کی کثرت کے سبب یاپھر دیگر ضرورتوں کے سبب دوسری شادی کی ضرورت پڑتی ہے ۔معاشرے میں میں دوسری شادی کا رواج مستمر ہوچکا ہے مگر اس کے شروط و ضوابط سییا تو ناآشنا ہیں یا پھر قرآن حکیم کی آیات جس میں چارتک شادیوں کی اجازت دی گئی ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے مثال دی جاتی ہے کہ آپ نے ایک سے زائد شادیاں کی ہیں ،ان رخصتوں کی مکمل اور عمیق تفہیم کرنے کی بجائے شادی پر شادی کا عمل جاری و ساری ہے۔ہم اس تحریر میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت زواج کو بیان کریں گے۔
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لی جائے کہ کیا ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنی بیویوں کے حقوق اداکرے یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ضرورت مند خواتین سے رشتہ ازواج قائم کرے اگرکوئی فردایسا جذبہ اور اس کوبجادینے کی سقت ہے تو دوسری شادی میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔بصورت دیگر خواہشات نفس کی تسکین کے لئے شادی پر شادی کرنا کسی طور جائز نہیں۔حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد چونکہ ان کی بیٹیاں بھی تھیں ان کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ پیش آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سودہ بنت زمعہ کے بارے میں بتایاگیا کہ انہوں نے مشکل وقت میں اسلام قبول کیا اور اپنے خاوند کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی تھی اور سفر کے مصاعب و مشاکل کے امتحان کو کس صبر واستقامت کے ساتھ انجام دیا۔
اسلام کی حقانیت مسلم و غالب ہوجانے کے بعد ان کے شوہرالسکران بن عمرو کی وفات ہوگئی اوروہ ادھیڑ عمر یعنی عمر رسیدہ عورت ہے۔اس کے سبب اب وہ سخت کسمپرسی کی حالت میں مشکل زندگی بسر کررہی ہیں اگر آپۖ ان کے ساتھ نکاح کرلیں تو جہاں پر حضرت خدیجہ کے بچیوں کی تربیت اور دیکھ بھال کا انتظام ہوجائے گا وہیں پر حضرت سودہ کی معاشی حالات بھی بہتر ہوجائیں گے۔کیا آج ممکن ہے کہ دوسری شادی کی رٹ لگانے والے کسی سے صرف اس لئے شادی کریں کہ اس نے دین کی خاطر بڑی قربانی دی ہے۔
جیساکہ حضرت سودہ نے اپناسب کچھ اسلام پر قربان کردیا تھا اور اس کا خاوند فوت ہوجانے کے بعد بیوہ ہوگئی تھیں۔۔۔اسلام نے ان کو کیا دیا؟بس نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ان کے ساتھ نکاح کرکے ان کی کفالت کا ذمہ لیا اور انہیں مسلمانوں کی ماں ہونے کا اعزاز نصیب ہوگیا۔یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ حضرت حفصہ بنت عمر نے اور ان کے شوہر نے بھی ہجرت کی تھی اور ان کے شوہر کی وفات کے بعد نبی کریم ۖ نے ان سے بھی نکاح کیا۔اسی طرح حضرت ام سلمہ نے اسلام قبول کرلیا اور انہوں نے ہجرت کا قصد کیا تو مشرکین نے ان سے ان کے خاوند اور ان کے بچے کو چھین لیااور اسی اثنا میں ان کے شوہر کی وفات ہوجاتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ شادی کرلی جبکہ ان کی عمر بھی بہت زیادہ تھی،لیکن آج کون ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح دوسروں کو بوجھ اٹھا ئے اور ان کے نان نفقہ کی ذمہ داری خود پر لے۔
اس طرح دوسری ،تیسری اور چوتھی شادی کی اسلام میں رخصت و اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ضوابط بھی ہیں اوربڑی ذمہ داری بھی۔شادی کا مقصد صرف شہوت کی تسکین نہیں ہے۔۔۔بلکہ بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر اس میں کسی درجہ کی بے احتیاطی ہوجائے تو قیامت کے دن اس سے متعلق جوابدہی دینا ہوگی۔اس بارے میں بھی بوچھ ہوگی کہ اولاد نماز کی ادائیگی سے پہلوتہی کرتی ہے،دین کی تفہیم سے نا آشنا ہیں،معاشرے میں حسن معاملہ کرنے سے عاری ہیں،معاشرے میں معاملہ کرتے وقت اخلاقیات کے تمام اصولوں کو تہ تیغ کرتے ہیں،یا پھر ان کو ناقص تربیت و پرورش کے نتیجہ میںکسی بھی طرح کی جسمانی و روحانی لاحق ہونے کا سوال بھی والدین سے پوچھاجائے گاکہ بچوں کو جنم تو دیا مگر ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام نہیں کیاکیوں؟۔اگر کوئی انسان اپنی اولاد کے حقوق میں تقصیر کرنے کے ساتھ دوسری شادی کرتاہے تو اس کوبیوی اور اولاد کے حقوق میں تغافل و سستی کرنے بارے میں عنداللہ روزمحشر جواب دیناہوگا۔ مرد حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بات نہیں دیکھا جائے گا جب روز محشر بپاہوگا تو ابھی تو عیش و راحت کے ساتھ زندگی بسر کرلی جائے۔
بیشک صحابہ کرام کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس تھا اور نبی کریم ۖ بھی اہتمام کرتے تھے کہ ازواج المئومنین کے حقوق پایہ تکمیل کو پہنچیں۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ام سلمہ کے بچے جو کہ بالغ تھے ان کی نگہداش کی ذمہ داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنبھالی۔ہمیں ملحوظ نظر رکھنا چاہیے قرآن حکیم نے جب شادی کے بارے میں رخصت دی تو ارشاد فرمایا”فانکحواماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع”یہ نہیں فرمایا”فانکحواماطاب لکم من الفتیات”یعنی ”شادی کروتم عورتوں سے دو،تین اور چار ”اللہ نے یہ نہیں کہا کہ” نکاح کرو لڑکیوں سے”بلکہ عورتوں کا ذکر کیا ہے کہ ان سے شادی کرو۔نکاح باوجود اس کے کہ اس کی رخصت دی گئی ہے مگر اس کے ساتھ یہ اتنا آسان عمل نہیں ہے بلکہ اس میں نہایت احتیاط اور توازن اور بہت سے مصالحت کے پہلو ہیں جن کی تعلیم اسلامی شریعت نے دی ہے لازم ہے کہ لوگ اس بارے میں جان کاری حاصل کرلیں۔
تحریر : ڈاکٹر خالد فواد الازہری