شادی بیاہ جیسی تقریبات کو یادگار بنانے کیلئے ملبوسات کی تیاری ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے آج کل جیسا کہ شادیوں کا سیزن عروج پر ہے خواتین بازاروں میں عروسی ملبوسات کو منفرد بنانے کیلئے جا بجا خریداری کرتی نظر آتی ہیں۔ڈیزائنرز بھی اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔حال ہی میں لاہور میں برائیڈل ویک کا انعقاد ہوا جس میں 16سے زائد ڈریس ڈیزائنرز نے اپنی اپنی برائیڈل کلیکشن پیش کی جس کو بہت سراہا گیا۔پیش کردہ تمام کلیکشن کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں ہر ڈیزائنر کے اپنی کلیکشن میں نت نئے تجربات سے کام لیا۔اس وقت پاکستانی فیشن اس موڑ پر ہے جہاں رنگوں اور ڈیزائنز کی کوئی قید نہیں رہی آپ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی رنگ اور کٹ کا عروسی جوڑا بنواسکتی ہیں۔ آج ہلکا کام اور ماڈرن کٹس پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے نقشہ دبکہ اور تلے کا کام خاصا کامن ہے جبکہ ریشم اور دھاگے کا کام آج بھی اپنے اندر انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔قمیضوں کے پینل بھی قدرے کم اور ساٹن سلک کی پٹیاں قمیضوں کے گھیرے،گلا بازو اور دوپٹے کے کناروں پر لگائی جا رہی ہیں۔مختلف رنگوں میں دستیاب یہ پٹیاں ڈریس پر لگانے کے بعد کسی قسم کے کام کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس قسم کی پٹیاں زیادہ تر وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جن کا بجٹ محدود ہوتا ہے ورنہ روایتی کام کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی بلکہ پچاس برس قبل ملبوسات پر کئے جانے والا کام موجودہ دور میں خوب پسند کیا جا رہا ہے۔اس کی واضح مثال عروسی لباس پر تلہ،نقشی،دبکہ،گوٹا اور گوٹے کی پٹیوں پر ”دبکہ“ کا کام کیا جانا ہے۔اگر ہم تین چار دہائیوں قبل کے عروسی ملبوسات دیکھیں تو ان پر گوٹے ،نقشی دبکہ اور تلے کا کام واضح نظر آئے گا۔اب تو گوٹے کے رنگوں میں بھی ورائٹی موجود ہے باقاعدہ ہر رنگ میں گوٹا دستیاب ہے۔پہلے صرف بارات کا جوڑا بنانے پر تمام تر توجہ مرکوز رہتی تھی لیکن اب تو مہندی اور مایوں کے ملبوسات کی بھی بھرپور تیاری کی جاتی ہے بلکہ آڈر پر بنوائے جاتے ہیں اوریہ رجحان خاصا بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔فیشن کی دنیا میں کس قسم کے عروسی ملبوسات چل رہے ہیں اس حوالے سے ہم نے چند ایک فیشن ڈیزائنرز سے بات چیت کی۔ ”کامیار روکنی“ نے کہا کہ گزشتہ دو تین برسوں سے فیشن ٹرینڈز تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور برائیڈل ڈریسز میں تو خاصی ورائٹی آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام فیشن ڈیزائنرز منفرد تجربات سے کام لے رہے ہیں۔روایتی موٹیوزاور راجھستانی رنگ خاصے مقبول ہیں،خصوصی طور پر لال اور شاکنگ پنک رنگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔”حاجرہ حیات“ نے کہا کہ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایسے برائیڈل ڈریسز تیار کئے جائیں جس میں ہماری ثقافت کے رنگ نمایاں ہوں۔”نکی اینڈ نینا“ نے کہا کہ آج کل 1930ء کا کام چل رہا ہے جالی کے دوپٹے ،غرارے ،چھوٹی اور لمبی دونوں طرح کی قمیضیں حتیٰ کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصی مقبول ہے۔سٹونز،دبکے کا کام ،نقشی گوٹے کو بھی ترجیح دی جا رہشادی بیاہ جیسی تقریبات کو یادگار بنانے کیلئے ملبوسات کی تیاری ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے آج کل جیسا کہ شادیوں کا سیزن عروج پر ہے خواتین بازاروں میں عروسی ملبوسات کو منفرد بنانے کیلئے جا بجا خریداری کرتی نظر آتی ہیں۔ڈیزائنرز بھی اس ضمن میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔حال ہی میں لاہور میں برائیڈل ویک کا انعقاد ہوا جس میں 16سے زائد ڈریس ڈیزائنرز نے اپنی اپنی برائیڈل کلیکشن پیش کی جس کو بہت سراہا گیا۔پیش کردہ تمام کلیکشن کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں ہر ڈیزائنر کے اپنی کلیکشن میں نت نئے تجربات سے کام لیا۔اس وقت پاکستانی فیشن اس موڑ پر ہے جہاں رنگوں اور ڈیزائنز کی کوئی قید نہیں رہی آپ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی رنگ اور کٹ کا عروسی جوڑا بنواسکتی ہیں۔ آج ہلکا کام اور ماڈرن کٹس پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے نقشہ دبکہ اور تلے کا کام خاصا کامن ہے جبکہ ریشم اور دھاگے کا کام آج بھی اپنے اندر انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔قمیضوں کے پینل بھی قدرے کم اور ساٹن سلک کی پٹیاں قمیضوں کے گھیرے،گلا بازو اور دوپٹے کے کناروں پر لگائی جا رہی ہیں۔مختلف رنگوں میں دستیاب یہ پٹیاں ڈریس پر لگانے کے بعد کسی قسم کے کام کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس قسم کی پٹیاں زیادہ تر وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جن کا بجٹ محدود ہوتا ہے ورنہ روایتی کام کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی بلکہ پچاس برس قبل ملبوسات پر کئے جانے والا کام موجودہ دور میں خوب پسند کیا جا رہا ہے۔اس کی واضح مثال عروسی لباس پر تلہ،نقشی،دبکہ،گوٹا اور گوٹے کی پٹیوں پر ”دبکہ“ کا کام کیا جانا ہے۔اگر ہم تین چار دہائیوں قبل کے عروسی ملبوسات دیکھیں تو ان پر گوٹے ،نقشی دبکہ اور تلے کا کام واضح نظر آئے گا۔اب تو گوٹے کے رنگوں میں بھی ورائٹی موجود ہے باقاعدہ ہر رنگ میں گوٹا دستیاب ہے۔پہلے صرف بارات کا جوڑا بنانے پر تمام تر توجہ مرکوز رہتی تھی لیکن اب تو مہندی اور مایوں کے ملبوسات کی بھی بھرپور تیاری کی جاتی ہے بلکہ آڈر پر بنوائے جاتے ہیں اوریہ رجحان خاصا بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔فیشن کی دنیا میں کس قسم کے عروسی ملبوسات چل رہے ہیں اس حوالے سے ہم نے چند ایک فیشن ڈیزائنرز سے بات چیت کی۔ ”کامیار روکنی“ نے کہا کہ گزشتہ دو تین برسوں سے فیشن ٹرینڈز تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور برائیڈل ڈریسز میں تو خاصی ورائٹی آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام فیشن ڈیزائنرز منفرد تجربات سے کام لے رہے ہیں۔روایتی موٹیوزاور راجھستانی رنگ خاصے مقبول ہیں،خصوصی طور پر لال اور شاکنگ پنک رنگوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔”حاجرہ حیات“ نے کہا کہ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایسے برائیڈل ڈریسز تیار کئے جائیں جس میں ہماری ثقافت کے رنگ نمایاں ہوں۔”نکی اینڈ نینا“ نے کہا کہ آج کل 1930ء کا کام چل رہا ہے جالی کے دوپٹے ،غرارے ،چھوٹی اور لمبی دونوں طرح کی قمیضیں حتیٰ کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصی مقبول ہے۔سٹونز،دبکے کا کام ،نقشی گوٹے کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے۔گوٹے کا فیشن دوبارہ دیکھنے میں آرہا ہے ،غراروں پر پٹی پاجامہ ،چھوٹی بیلٹ والے فراق اور سرخ کے ساتھ برائٹ رنگ چل رہے ہیں۔”آصفہ نبیل “ نے کہا کہ آج کل جالی کا استعمال بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا جا رہا ہے۔بلاشبہ جالی کے بازو اوردوپٹوں پر مختلف قسم کا کام اور کام والی پٹیاں لباس کی خوبصورتی میں مزیداضافہ کرتی ہیں۔لڑکیاں ماڈرن طرز کے روایتی لباس پہننا زیادہ پسند کر رہی ہیں اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ڈریس ڈیزائنرز بھی عروسی ملبوسات کی تیاری کر رہے ہیں۔مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیضوں کا استعمال لہنگوں اور شراروں کے ساتھ بلاشبہ ایک نیا تجربہ ہے۔جالی کی قمیضیں اور ان کے گھیروں پر جامہ ور اور مختلف قسم کی پٹیاں لگا کرلہنگے کی شرٹ کو سجایا جا رہا ہے۔ لہنگے اور غراروں کے ساتھ لانگ گاؤن اور اسپر خوبصورت کام بھی خواتین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ کرسٹل کے موتیوں کے موٹیوز بھی فیشن میں مقبول ہیں۔ ایک زمانے میں ہیوی شرٹس اور دوپٹوں کا رواج بہت عام ہو رہا تھا لیکن اب صرف قمیض کے گھیرے اور گلے پر کام چل رہا ہے۔ی ہے۔گوٹے کا فیشن دوبارہ دیکھنے میں آرہا ہے ،غراروں پر پٹی پاجامہ ،چھوٹی بیلٹ والے فراق اور سرخ کے ساتھ برائٹ رنگ چل رہے ہیں۔”آصفہ نبیل “ نے کہا کہ آج کل جالی کا استعمال بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا جا رہا ہے۔بلاشبہ جالی کے بازو اوردوپٹوں پر مختلف قسم کا کام اور کام والی پٹیاں لباس کی خوبصورتی میں مزیداضافہ کرتی ہیں۔لڑکیاں ماڈرن طرز کے روایتی لباس پہننا زیادہ پسند کر رہی ہیں اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم ڈریس ڈیزائنرز بھی عروسی ملبوسات کی تیاری کر رہے ہیں۔مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیضوں کا استعمال لہنگوں اور شراروں کے ساتھ بلاشبہ ایک نیا تجربہ ہے۔جالی کی قمیضیں اور ان کے گھیروں پر جامہ ور اور مختلف قسم کی پٹیاں لگا کرلہنگے کی شرٹ کو سجایا جا رہا ہے۔ لہنگے اور غراروں کے ساتھ لانگ گاؤن اور اسپر خوبصورت کام بھی خواتین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔اس کے علاوہ کرسٹل کے موتیوں کے موٹیوز بھی فیشن میں مقبول ہیں۔ ایک زمانے میں ہیوی شرٹس اور دوپٹوں کا رواج بہت عام ہو رہا تھا لیکن اب صرف قمیض کے گھیرے اور گلے پر کام چل رہا ہے۔