تحریر: شیخ خالد زاہد
بوجھ کی دو قسمیں واضح ہیں ۔۔۔ایک بوجھ طبعی ہوتا ہے جو جسمانی آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ دوسرا بوجھ صرف من کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور جو بوجھ بھی من پر پڑتا ہے۔ اس کے لئے بصیرت کی ضرورت ہوتی ہےاور بصیرت ہر کسی کو نہیں ملتی یہ بھی محبت کی طرح خداوند تعالی اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتے ہیں۔
دنیا ڈیجیٹل ہوتی چلی جا رہی ہے ، اسمارٹ فون کی مرہونِ منت بہت سارا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے یا کم سے کم ہوگیا ہے۔ کیا بوجھ کو بوجھ کہا جائے یا نہ کہا جائے؟؟؟بوجھ کو بوجھ کہنے کیلئے معاشرتی اور اخلاقی دو مختلف جواز ہیں۔ کیا بوجھ کی ابتدائی شکل کچھ اور ہوسکتی ہے اور انتہائی شکل کو بوجھ کا نام دیتے ہیں؟؟؟ مختلف لوگ اس بحث کو مختلف زاویوں سے پیش کرینگے اور زیرِ بحث لائینگے۔حقیقت میں بوجھ جوطبعی حیثیت میں ہے آپ ایک حد تک برداشت کر سکتے ہیں کیونکہ یہ طبعی ہونے کی وجہ سے مخصوص جگہ گھیرتا ہے، وزن رکھتا ہے اور ایک حد تک ہی لادا یا اٹھایا جا سکتا ہے ۔آپ ایسے کسی بھی طبعی بوجھ کو برداشت کر سکتے ہیں۔ اب تو سائنس کی بیش بہا ایجادات نے انسان کی مشکل بہت آسان کردی ہے۔اسے طبعی بوجھ کی مشکل سے نجات دلا دی ہے۔ جب کہ بوجھ کی دوسری صورت بغیر شکل کے ہوتی ہے۔ نہ ہی گھیری ہوئی جگہ کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی وزن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس بوجھ کے بڑھنے کاتقاضا بھی نہیں کیا جاسکتاکیونکہ یہ ظاہری آنکھ سےاوجھل ہوتا ہے۔
مشرق اور مغرب، بہت سارے دوسرے امور کی طرح بوجھ کے معاملے میں بھی مختلف ہیں۔ مغرب میں ہر فرد اپنی زندگی انفرادی حیثیت سے گزارتا ہے یا گزارنا چاہتا ہے۔ جو دل چاہا وہ کیا جو دل نہیں چاہا اسے کرنے یا کروانے کیلئے کوئی زبردستی نہیں کرسکتا۔ مشرق میں مشترکہ خاندانی نظام ہوتے ہیں جو وہ سب کرنے پر مجبور کرتے ہیں جسکا دل چاہے یا نا چاہے، اس عمل کو تربیت کا انداز یا حصہ بھی قرار دیا جاتا ہے، اس ماحول میں کوئی نا کوئی ضابطہ اخلاق ہرخاندان کا خاصہ ہوتا ہے جو اس خاندان کو دیگر خاندانوں سے منفرد کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مشرق میں کوئی خاندان سے بغیر بغاوت کئے زندگی “شتر بے مہار ” کی مانند نہیں گزار سکتے۔ صبح کب اٹھنا ہے اور رات کو کب سونا ہے۔ جبکہ مغرب میں والدین پر انکے اپنے پیدا کئے ہوئے بچے بوجھ بن جاتے ہیں اسی طرح ایک وقت آتا ہے جب بچوں پر انکو پیدا کرنے والے ماں باپ بوجھ بن جاتے ہیں۔ مغرب میں ہر فرد اپنا بوجھ خود اٹھاتا ہے اور اسے سخت زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ ان لوگوں کو اس پرفخر بھی ہوتا ہے لیکن انکا یہ فخر ان کی طبعیت میں کھردرا پن پیدا کردیتا ہے جس سے اسکی روح زخمی ہوجاتی ہے اور پھر وہ روحوں کو زخمی کرتا چلا جاتاہے۔ اپنے اوپر نا نظر آنے والا بوجھ بڑھاتا ہی چلا جاتا ہے ۔
بوجھ کی پہلی صورت کو طبعیات کہ طالبِ علم بہت بہتر طریقوں سے سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں۔ ہم یہاں اس بوجھ کا تذکرہ کررہے ہیں جو نظر تو نہیں آتا مگر نظر آنے والے بوجھ سے بہت زیادہ وزنی ہوتا ہے۔ ایسے بوجھ کو خیالی یا روحانی بوجھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ انسان نا چاہتے ہوئے لوگوں کے کسی ایسے حلقے میں محصور ہوجائے جو اسکی طبعیت کے منافی ہو، وہ حلقہ یا اس حلقے میں موجود لوگ اس شخص پر بوجھ ہوگئے یا وہ شخص ان پر بوجھ ہوگیا۔ کسی بھی محفل کا حصہ بننے کیلئے یہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ آپسی ذہنی ہم اہنگی اور مماثلت کسی حد تک ضروری ہے۔ کسی ظاہری خوبصورت شے کو دیکھ کر اسے پسند کرلیا جاتا ہے اس کے استعمال کے بعد جائزہ لیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کے یہ چیز مضبوط یا پائیدار نہیں ہے۔
اگر کوئی آج کل کسی سے میل ملاپ رکھنا چاہتا ہے تو زمانے بھر کی زبانوں پر اس تعلق کے حوالے سے سوال ہوتے ہیں اور آنکھیں سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہیں اور کچھ ایسی سرگوشیاں سماع خراشی کرتی ہیں کے “کوئی تو وجہ ہوگی اس میل ملاپ بڑھانے کی”۔ میل ملاپ کو ان جیسی وجوہات کی بھینٹ چڑھایا جاتاہے، کسی حد تک شائد ایسا ہی ہے مگر کیا بلکل ہی ایسا ہے؟ کیا آج کوئی بھی کسی سے بغیر کسی مطلب یا ضرورت کے نہیں ملتا، ایک کہاوت بڑوں نے مشہور کر رکھی ہے کے ” بچے کو بھوک ماں کے پاس لے آتی ہے” کیا محبت اس بھوک کی محتاج ہے کیا ماں کا تعلق بھی کسی وجہ کا محتاج ہے” والدین پر اولاد بوجھ ہوسکتی ہے” اولاد پر والدین کیوں بوجھ بن جاتے ہیں” بہت عجیب و غریب سوالات اس دور میں جنم لے رہے ہیں۔ رشتوں یا تعلقات میں بوجھ کی بہت زیادہ اہمیت ہے ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہان لوگ بھائی بھائی کے بیچ نفرت کا بیج بونے کا بہانہ ڈوھنڈتے رہتے ہیں اور موقع ملتا ہی یہ بیج بو دیا جاتا ہے اور دوبھائیوں کو دو مختلف خاندانوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ یہاں لوگ ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کعبے سے کافر۔
ہم اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کا بوجھ لئے ساری زندگی بوجھل بوجھل سے رہتے ہیں۔ دوسروں کو تنگ کر کے کسی تکلیف میں مبتلا کر کے اپنے نا معلوم مقاصد اور احداف تو حاصل کر لیتے ہیں مگر سکون سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور راتوں کو کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔ اپنے آپ کو دنیا کی رنگینیوں میں بہلانے کی ناکام کوششیں بھی کرتے ہیں کبھی کچھ تو کبھی کچھ کرتے چلے جاتے ہیں مگر بوجھ ہلکا نہیں ہوتا۔
آخر یہ بوجھ بڑھتا ہی کیوں جاتا ہے ؟ اس بوجھ کے بڑھتے جانے کی اہم ترین وجہ جو بہت تلخ حقیقتیں ہیں، وہ ہیں حسد، غیبت اور جلن جیسے امراض کا کم یا زیادہ مقدار میں موجود ہونا ہے۔ انسان نے طبعی امراض سے نجات حاصل کرنے کیلئے سائنسی علوم اور تجربات میں اہم ترین پیشرفت کی بدولت ایک سے بڑھ کر ایک ادویات تیار کرلی ہیں۔ درد اب درد نہیں رہا یہاں تک کہ اب دردِ زاہ جو ماں سے بچے کی تاحیات محبت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اب اس سے بھی نجات کے وسائل موجود ہیں۔ انسان ایک ایسے بوجھ سے جو نظر بھی نہیں آتا مگر بہت وزنی ہوتا ہے اٹھائے پھر رہا ہے۔ اپنے آپ سے چھپتا رہتا ہے ۔ ہم سب اپنے اپنے بوجھ کو اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ اس بوجھ کی بدولت ہماری عبادات بھی بہت کم کم اپنے رب تک رسائی پاتی ہونگی اور دعائیں مقبول ہونے سے رہے جاتی ہیں۔
اس بوجھ سے نجات صرف اور صرف سچ اور حق گوئی میں ہے،ایک دوسرے کی خوشیوں کا سبب بننے میں ہے، ایک دوسرے کی خیر خواہی میں ہے، ایک دوسرے سے بانٹنے میں ہے، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہے، ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہونے میں ہے، اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں ہے، دلوں کو صاف رکھنے میں ہے، ایک دوسرے کا حق دے دینے میں ہے اور ایک دوسرے کیلئے بھاگ دوڑ کرنے میں ہے۔ بوجھ خود با خود اتر کر کہیں گر جائے گا یا زائل ہوجائے گا یا پھر ہوا میں تحلیل ہوجائے گا اور ہم حقیقی معنوں میں ہلکے پھلکے ہوجائینگے پھر اپنے رب سے سچی توبہ میں ہے یہ سچی توبہ رب سے سچی محبت پیداکردے گی یہ سچی محبت دنیا اور دنیاداری سے محبت ختم کردے گی اور تمام بوجھ اتر جائنگے تن اور من ہلکے ہوجائنگے اور ہم ہواؤں میں معلق ہوجائنگے۔ ہمارے چہروں پر تمانیت آجائے گی ہر کوئی ایک دوسرے کو مسکراتا لگے گا۔ دل کی دھڑکنیں ردھم میں ہونگی۔ دعائیں مقبول ہونے لگینگی۔
دعائے اشفاق پر اس خاص مضمون کا اختتام کرونگا کہ اللہ ہمیں آسانیاں پیدا کرنے والا بنائے اور ہمارے لئے دنیا اور آخرت میں آسانی کا معاملہ فرمائے (آمین یا رب العالمین)۔
تحریر: شیخ خالد زاہد