گزشتہ چند ہفتوں میں جنوبی ایشیا میں واقعات نے حیران کن پلٹا کھایا ہے۔ حیران کن اس لئے نہیں کہ پاکستان اور بھارت ایک ایٹمی جنگ کے کنارے پر کھڑے تھے بلکہ اس لئے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے کردار یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان ایک میچور، ذمہ دار اور معاملہ فہم ایٹمی ملک بن کر ابھرا ہے‘ جس نے تحمل اور امن پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھی اپنی عسکری شجاعت کی دھاک بٹھا دی ہے‘ جب کہ بھارت ایک جنگجو، جابر اور جارح ملک بن کر ابھرا ہے جو عسکری محاذ پر شرمندہ ہونے کے باوجود اپنے جنگی جنون کی وجہ سے خطے کے امن کو خطرے سے دوچار کئے ہوئے ہے۔
آج کے تناظر میں دونوں ملکوں کا جو نیا اور درست تعارف سامنے آیا ہے چند روز پہلے تک اس کا تصور بھی محال تھا۔ دنیا بھر میں (ہمارے ٹویٹر پر نفرت پھیلانے والے بریگیڈ سمیت) یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ پاکستان ایک غیر ذمہ دار نیوکلیئر ملک ہے جو بھارت کے ساتھ ایک پراکسی جنگ کی وجہ سے ہمارے خطے کے امن کے لئے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف بھارت کو ایک کثیر قومی، سیکولر جمہوری ملک بنا کر پیش کیا جاتا رہا‘ جسے بار بار اپنے دفاع کے لئے جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب جھوٹ کے یہ دونوں بت زمیں بوس ہو چکے ہیں‘ جس کا کریڈٹ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے تو دوسری طرف زہر اگلتے بھارتی میڈیا کے (ارناب گوسوامی، راہول شیوشنکر جیسے) صحافیوں کو بھی جاتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دن کی روشنی میں ہوا ہے اور (الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سے چپکے) اربوں لوگ اس بات کے گواہ ہیں۔ ہمارے طلسماتی شخصیت کے حامل وزیر اعظم نے‘ جنہیں ٹھنڈے مزاج کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی اعانت بھی حاصل تھی‘ کشیدگی اور تنائو کے اس ماحول کے دوران قوم سے کئی مرتبہ خطاب کیا۔ ہر موقعے پر قوم کو اعتماد میں لیا گیا۔ ہر مناسب موقعے پر ہماری افواج کی بہادری کی مصدقہ ویڈیوز اور دیگر ثبوت ریلیز کئے گئے۔ اور سجن جندال کے ساتھ کسی نامعلوم مقام پر بیک ڈور ڈیل پر دستخط کئے بغیر اس کشیدگی میں کمی ہوتی نظر آ رہی ہے۔
آزمائش کی اس گھڑی میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ( جو مسلح افواج کی طرف سے ہر طرح کی مہم کوئی سے نمٹنے کی تیاری کی یقین دہانی کراتے ہوئے) نہ تو اپنا سینہ تھپکایا اور نہ ہی غیر ضروری بلند بانگ دعوے کئے۔ حتیٰ کہ کامیاب جوابی حملے کے بعد‘ جس میں ہماری فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک ونگ کمانڈر کو گرفتار کر لیا تھا‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ ”ہماری آج کی کارروائی اپنے دفاع کے لئے تھی۔ ہم کسی فتح کا دعویٰ نہیں کرنا چاہتے‘ جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا‘‘۔ یہ باتیں میدان جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد کی گئیں۔
عین اسی وقت ہمارے وزیر خارجہ دنیا بھر میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ رابطے میں رہے۔ عالمی برادری کو ہماری مسلح افواج کے تحمل اور صبر کے بارے میں آگاہ رکھا گیا۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپوزیشن رہنمائوں کو جنگ کی تازہ ترین صورت حال کے بارے میں ان کیمرہ بریفنگ دی۔ حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا‘ جہاں وزیر اعظم نے کشیدگی میں کمی لانے کی کوششوں کے حوالے سے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔
پاکستان کی طرف سے ایسی عسکری اور جمہوری میچورٹی کے مظاہرے پر آپ اکیلے ہی حیران نہیں ہیں۔ آپ کے ساتھ ہماری وہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں‘ جو انگشت بدنداں ہیں۔ جب کہنے کو اور کچھ نہ ملا تو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت اپوزیشن رہنمائوں نے جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس کی جس میں خواجہ سعد رفیق کے اسمبلی میں شرکت کے لئے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر حکومت پر تنقید کی گئی۔ یہ ہیں وہ امور جن کے بارے میں ہمارے سیاست دان جنگ کے زمانے میں پریشانی کا شکار ہیں۔انہیں مطعون کئے بغیر آئیں اور یہ تسلیم کریں کہ پاکستان اپنی داخلی پالیسی اور سفارت کاری کے حوالے سے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے۔ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے لے کر بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی تک‘ پاکستان خود کو عالمی سطح پر ایک نئے انداز میں منوا رہا ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے۔ کسی فائٹر جیٹ کے کاک پٹ میں بیٹھے نواز شریف کے ٹویٹ نئے حالات میں عمران خان کے قائدانہ کردار کو گہنا نہیں سکتے۔حالیہ بحران میں عمران خان نے داخلی سیاست میں بھی ایک بھرپور اور متوازن کردار ادا کیا ہے۔ ان کے تمام اقدامات پر اور جس انداز میں انہوں نے ان پر عمل درآمد کیا ہے‘ اپوزیشن جماعتوں کو شاید ہی کسی تنقید کا موقع ملا ہو۔ تنقید کے تیروں کی بارش رکنے کا یہ عمل عارضی نوعیت کا ہے۔ اندیشہ ہے کہ جلد توپوں کے منہ دوبارہ کھل جائیں گے کیونکہ پاکستان میں سیاست ایک گندہ کاروبار ہے۔
جنگ کے شور میں ہر چیز گم ہو جاتی ہے۔ جب لوگوں پر مسلط کر دی جائے (جیسا کہ پاکستان پر مسلط کی گئی) تو جنگ دیگر تمام قومی امور کو پیچھے دھکیل دیتی ہے۔ قومی صراحت کے ان عارضی لمحات میں دیکھتے ہیں کہ ہم نے کون سے سبق سیکھے ہیں۔ 1۔ ہمارے زیادہ تر دشمن ہماری سرحدوں سے باہر رہتے ہیں۔ 2۔ یہ دشمن ہمارے داخلی اختلافات اور تنازعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان اختلافات کو سیاسی، مذہبی اور نسلی حوالوں سے مزید ہوا دی جائے۔ بیرونی جارحیت کے وقت ہمارے داخلی سیاسی جھگڑے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں کیونکہ ہمارے دشمن ہر وقت ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے موقعہ کی تاک میں رہتے ہیں۔ 3۔ پاکستان کو کئی طرح کے حقیقی خطرات کا سامنا ہے‘ جن میں بھارتی جارحیت، افغانستان کی سازشیں، تحریکوں کو بیرونی فنڈنگ، عسکریت پسندوں کے داخلی ہمدرد، پریشان کن معاشی صورت حال، جہالت، پانی کی کم یابی اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے معاملات شامل ہیں۔ 4۔ خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر یا آغا سراج درانی کی گرفتاری کسی طور قومی اہمیت کے حامل ایشو نہیں ہیں۔ 5۔ ہماری پارلیمنٹ کے ارکان اپنی قومی ذمہ داریوں سے صرف نظر کر کے بے معنی جماعتی معاملات پر بحث میں مصروف ہیں یا قومی اہمیت کے اہم امور پر بحث کی مخالفت کر رہے ہیں۔ 6۔ جب ملک ایک سنگین صورت حال سے گزر رہا ہو تو پاکستانی عوام گھٹیا قسم کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی پروا نہیں کرتے۔ 7۔ جب پاکستان کی حکومت اور قومی ادارے مل کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں (جیسا کہ وہ گزشتہ چند ہفتوں سے کر رہے ہیں) تو ہم اقوام عالم میں پاکستان کو ایک ترقی پسند اور امن کے داعی ملک کے طور پر از سر نو کھڑا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر اس سارے واقعے سے ہم نے کوئی سبق سیکھا ہے تو یہ کہ ہمیں اپنے ذاتی سیاسی ایجنڈے کو پس پشت ڈال کر پاکستان کو درپیش مجموعی قومی امور پر ڈائیلاگ کا آغاز کرنا چاہئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت داخلی انتشار پھیلانے اور اپنے ذاتی آف شور خزانوں کے تحفظ کو فی الحال فراموش کر دے۔ آنے والے دنوں میں پاکستان میں ان لوگوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں‘ جو اپنی ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف دشمن کی زبان بولتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں‘ جنہوں نے قانون سازی کی ذمہ داریوں میں بھی اسی طرح کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے‘ جس طرح وہ کئی عشروں سے سفارت کاری اور گورننس کی ذمہ داریوں کے بارے میں کوتاہ اندیشی کرتے رہے ہیں۔ تم اپنے آپ سے بخوبی آگاہ ہو۔ وقت ہے کہ اب باز آ جائو۔