تحریر : ساجد حبیب میمن
رمضان کی آمد آمد ہے اور مومنین رمضان کی برکتوں اور فضیلتوں کو سمیٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ماہِ رمضان مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک احسان ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کے دل میں تقویٰ، پرہیزگاری،صبرو بردباری، ہمدردی، اتفاق، اخوت، مساوات اور رواداری کے اوصاف پیدا کرتا ہے اور تزکیہ نفس کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کے لحاظ سے اس ماہِ مبارک کو دیگر مہینوں پر بے پناہ فضیلت حاصل ہے۔ رمضان المکرم کا چاند نظر آتے ہی شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور رحمت ، برکت، اور بخشش کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
نوافل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ مسجدوں کی رونقیں بحال ہو جاتی ہیں ۔ گھروں میں عورتیںاور بچے باقاعدگی سے عبادات کا اہتمام کرتے ہیں۔ سحری و افطاری کے اہتمام اور دوستوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور غرباء و مساکین کے لئے افطاری کی دعوتوں میں عجیب ہی روحانی لطف، سرور اور دلکشی ہے جو کہیں اور نظر نہیں آتی۔ اس ماہِ مبارک کی بے شمار برکتوں کی بدولت پوری دنیا کے مسلمانوں کااس کی آمد کا انتظار رہتا ہے۔
ماہ رمضان کی عظمت یہ بھی ہے کہ اس میں لیلة القدر موجود ہے، لیلتہ القدر اس قدر عظیم الشان رات ہے کہ اس ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینہ کی عبادت سے افضل ہے۔ اس رات کی عظمت کے بیان کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورة القدرکے نام سے پوری ایک سورت نازل فرمائی ہے ۔ بھلا اس رات کی عظمت کیا ہو گی کی جس میں دستور انسانیت یعنی قرآن کریم کا نزول ہوا ہو؟ رمضان شریف کی تمام عظمت وبزرگی قرآن کریم کی مرہون منت ہے اور اس مہینہ کی ساری عظمتوں کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ وہ نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ”ہم نے اس قرآن کریم کو لیلةالقدر میں نازل کیا ہے۔
حضورۖ نے رمضان المبارک کو شہر الصبرفرمایا ہے اور صبر کے معنی نیکیوں پر استقامت اور اعمال خیر میں ثابت قدمی ہے ۔ شہرُ الصبر کے معنی ہیں اعمال خیر اور نیکیوں کا مہینہ ۔ اور روزہ کا دوسرا فائدہ جسے قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے وہ تقویٰ ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی قوموں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے”۔ ”تقویٰ ”کے معنیٰ ہیں محرمات اور گناہوں سے بچنا یعنی روزہ رکھنے سے انسان گناہ کے کاموں سے اور حرام چیزوں سے بچنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے کیونکہ جب کوئی بندہ روزہ رکھ کر حلال چیزوں سے بھی بچے گا تو حرام کا موں کے ارتکاب سے بدرجہ اولی بچنے کا اہتمام کرے گا ۔ لہذا یہ کہا جاسکتاہے کہ رمضان المبارک صبر وتقویٰ کا مہینہ ہے یعنی اس ماہ مبارک میں روزے رکھ کر اہل ایمان گناہوں سے اجتناب اور نیکیوں کے اہتمام کے زیور سے آراستہ ہو جاتے ہیں۔
روزے کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ محض سحری سے لے کر افطاری تک کھانے پینے سے اجتناب کا نام روزہ نہیں ہے بلکہ روزہ انسانی جسم کے ہر حصہ کا ہوتا ہے جیسے زبان، آنکھیں، کان، ناک اور ہاتھ وغیرہ۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ روزہ کے درمیان اپنے ہاتھ سے کوئی غلط کام نہ کرے، کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، کوئی ناانصافی نہ کرے، کوئی گناہ نہ کرے۔ اپنی زبان سے کوئی غلط الفاظ ادا نہ کرے، کسی کے لئے تکلیف دہ الفاظ نہ بولے۔ اپنے کانوں سے غلط الفاظ نہ سنے، اسی طرح دل اور دماغ کا بھی روزہ ہوتا ہے۔ اپنے دل سے کسی کی برائی نہ سوچے اور نہ ہی دماغ کو کسی غلط مقصد کے لئے یا گنا ہ کے لئے استعمال کرے۔
یہ روزہ کا صحیح مفہوم، اس کا استعمال اور اس کی حکمت ہے تاہم آج کل خاص طور پر پاکستان میں رمضان کا ایک عجیب ہی ماحول بن گیا ہے۔ مسلمانوں کو رمضان کی آمد پر برکتوں اور فضیلتوں کے ساتھ آنے والے مہنگائی کے طوفان کا شدید خدشہ رہتا ہے اور اس دفعہ بھی ہے۔ جس طرح روزہ داروں کو رمضان کی آمد کا انتظار رہتا ہے اسی طرح ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، گراں فروش تاجروں اور گداگروں کو رہتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں رمضان کے دوران اشیائے صَرف کی قیمتوں میں کمی کی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں قیمتیں کئی گنا بڑھا دی جاتی ہیں۔ ایک دو ماہ قبل ہی کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی شروع ہو جاتی ہے اور اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتیں آسمان تک پہنچا دی جاتی ہیں۔ پاکستان کی نصف آبادی سطحِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
مہنگائی نے پہلے ہی ان کی کمر توڑ رکھی ہے لیکن رمضان میں ان کے لئے مزید مشکلات پیدا کر دی جاتی ہیں۔ حکومت کا کہیں کنٹرول نظر نہیں آتا اور تاجروں اور دکانداروں کی اس مہینہ میں چاندی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں جھوٹ بول کر کاروبار کرنا ایک غیر معیوب عمل سمجھا جانے لگا ہے اور تاجر حضرات رمضان کے مہینہ میں جھوٹ کا استعمال اور بڑھا دیتے ہیں۔ صوم و صلوٰة کے پابند تاجر بھی کاروبار میں بے دریغ جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم رمضان کے مہینہ کا ہی احترام کر لیں۔
جھوٹ بول کر کمایا گیا پیسہ جائز نہیں ہوتا۔ خدارا ملک کے غریبوں کے حال پر رحم کریں اور رمضان میں ناجائز منافع خوری ، ذخیرہ اندوزی اور جھوٹ ترک کر دیں۔ یقین کریں اللہ آ پ کے مال میں برکت ڈال دے گا۔ اگر روزہ رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں اور ناجائز منافع کماتے ہیں تو یقین کریں کہ اللہ کو آپ کے ایسے روزے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رمضان کے دوران سب سے عجیب صورتِ حال ٹی وی چینلز پر نظر آتی ہے۔
ٹی وی چینلز پر رمضان کے نام سے چلنے والے پروگرامز، مذہبی احکامات، روایات اور اخلاقیات کی کھلم کھلا دھجیاں اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سحرو افطار اور نمازوں کے اوقات میں نام نہاد عالم عوام کو گمراہ کرنے پر لگے ہیں۔ انعامی پروگراموں کے اندر فضولیات بکی جاتی ہیں اور فحاشی پھیلائی جاتی ہے اور ان پروگراموں کی ٹائمنگ اس طرح رکھی جاتی ہے کہ لوگ نمازیں نہ پڑھ سکیں۔ ہر ٹی وی چینل نے رمضان انعامی پروگرام کے نام پر ایک ایک مداری بٹھایا ہوتا ہے جو ریٹنگ حاصل کرنے کے لئے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتا ہے۔
ان ریٹنگ کے چکروں میں ٹی وی چینلز نے رمضان کے روایتی احترام اور تاثر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میری ٹی وی چینلز مالکان سے گزارش ہے کہ پیسہ کمانے اور ریٹنگ حاصل کرنے کے اور بہت طریقے ہیں لیکن خدارا رمضان کا احترام کریں اور رمضان میں اس طرح کے پروگرم نشر نہ کریں۔اس سلسلہ میں پیمرا کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی اس منفی رجحان کی حوصلہ شکنی کے لئے پیمرا کو ہدایات نامہ جاری کرنا چاہیے۔
تحریر : ساجد حبیب میمن
موبائل: 0321-9292108
ای میل: sadae.haq77@gmail.com