تحریر : افتخار چوہدری
سمیرہ عزیز آج کل پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ان کا آنا مثل بہار ہے۔ہم ارض مقدس سے آنے والی سعودی میڈیا پرسنیلٹی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔سمیرہ کو میں تقریبا بیس سال سے جانتا ہوں۔پچھلی بار جدہ گیا تو اس کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا ۔کھلائے جانے والے کرارے سموسوں کی طرح کراری باتیں بھی ہوئیں میرے ساتھ برادر فرخ رشید بھی تھے جنہوں نے سعودی میڈیا شخصیات سے ہماری ملاقاتیں کرائیں کچھ انٹر ویو کچھ دل کی باتیں اور تحریک انصاف کی سعودی عرب سے خفگی کے تذکرے بھی تھے جو میں نے دور کر دیے۔سمیرہ کراچی اور لاہور کے مختلف چینلز میں چھائی دکھائی دیتی ہیں۔ان کی آمد سے کم از کم مجھے مدد مل گئی ہے میں جو ہمیشہ سعودی عرب کے گن گاتا ہوں ۔جب بھی وہاں کے نظام عدل کو دیکھتا ہوں تو اپنے کے بارے میں سوچ کر دل جلتا ہی نہیں راکھ ہو جاتا ہے۔
میں نے اپنے کالموں میں جب بھی حقائق لکھے مجھے لوگ مارنے دوڑے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ سعودی عرب کے بارے میں ایک غلط تآثر قائم کر لیا گیا ہے کہ وہاں کا معاشرہ بڑا کلوز ہے وہاں کی سزائیں بہت سخت ہیں۔میں بھی جانے سے پہلے سوچا کرتا تھا کہ جہاز سے اتروں گا تو لوگ ٹنڈے نظر آئیں گے کسی کی آنکھ نہیں ہو گی اور کسی کا ہاتھ۔لیکن جدہ کے کندرہ والے ایئر پور ٹ پے اتر کر محسوس کیا سفر وسیلہ ظفر ہی نہیں وسیلہ ء عقل بھی ہوتا ہے۔
١٩٧٧ سے لے کر اب تک کا سفر ایک زندگی ہے۔مجھے یقین ہے سعودی عرب میں جو شخص ١٩٧٧ میں اس دنیا سے کوچ کر گیا تھا اگر وہ آج زندہ ہو جائے تو وہ پھر مر جائے گا اور اس بار اس کی موت کی وجہ حیرت ہوگی۔شاہ خالد کے زمانے سے خادم حرمین سلمان بن عبدالعزیز کا دور تعمیر و ترقی کا دور ہے۔میں اگر آپ کو یہ بتائوں کے حرم پاک کی کیا حالت تھی تو آپ یقین نہیں کریں گے طواف والی جگہ کوئی دس میٹر کے سرکل میں ہو گی۔وضو کے لئے پانی نہ دارد۔اسی طرح شہروں میں سڑکوں کی تعداد بہت کم اور ناقص تھی۔کالجوں یونیورسٹیوں نہ ہونے کی برابر تھیں۔ہسپتال بھی ناپید۔مگر آل سعود نے تیل کی دولت کو اپنے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے میں جان لڑا دی۔
اس ملک نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا،پاکستان جب ٹوٹا تو کہتے ہیں کنگ فیصل زندگی میں پہلی بار روئے اور ایک اور سعودی فرماں روا اس وقت روئے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے۔میں سعودیوں کے گن گانے نہیں بیٹھا لیکن اتنا بتا دوں ہم نے نے انہیں دو بار آزمایا اور وہ دو بار ہی آزمائیش پر پورے اترے اور اتنی ہی بار ہمیں بھی آزمایا گیا اور ہم برادر تو ثابت ہوئے لیکن یوسف۔ہماری اس اسمبلی نے جو بھی جنا سیاہ ہی جنا۔کہتے ہیں لیبر روم کے باہر کچھ شوہر ٹہل رہے تھے۔اندر سے نرسیں نچے لے کر آئیں کچھ سارے گورے لیکن ایک کالا تھا۔ایک صاحب نے بڑھ کر تھام لیا نرس نے کہا سر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ آپ کا ہے ۔شوہر نے جواب دیا میری بیوی جو بھی بناتی جلا ہوا بناتی ہے۔ہماری اس اسمبلی سے سوائے اس کار شر کے کچھ نہ ہو سکا ۔دوست دوستوں کے ہوتے ہیں ۔جس ملک میں آپ کے مفادات دینی بھی ہوں اور دنیاوی بھی وہاں کم از کم اپنی اس نام نہاد جمہوری روش کو ایک منٹ کے لئے پرے رکھ دینا ہی مناسب ہوتا۔پہلی بار ہم نے جنرل اسلم بیگ کے دور میں چخ ماری اور دوسری بار یہ منفرد کام اسمبلی نے نبھایا۔
اللہ بھلا کرے جنرل راحیل شریف کا وہ سعودی عرب گئے اور انہیں یقین دلایا کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔البتہ حرمین میں وہ اکیلے نہ تھے بلکہ شریفین گئے۔اچھا ہوا کہ وہ وزیر اعظم کو بھی ساتھ لے گئے۔اس کے بر عکس اگر یہ اچھا کام نواز شریف صاحب سے سرزد ہوا ہے تو لائق تحسین ہیں۔اس لئے کہ ہمارے بیس لاکھ لاکھ لوگ ارض پاک میں موجود ہیں اور وہ تقریبا ١٣ ملین ڈالر پاکستان روانہ کرتے ہیں۔یورپ میں رہنے والے بھائی بھی بہت کچھ کرتے ہیں اللہ ان کو محفوظ اور خوش رکھے
لیکن جو کردار خلیج میں رہنے والوں کا ہے وہ تاریخی ہے۔سمیرہ کے دیس سے جو پیار ملا اس کی ہم قدر کرتے ہیں۔سعودی عرب سے آئی اس چھوٹی بہن نے پاکستانیوں کے دل جیتے ہیں بلکہ میں کہوں گا عمران خان کی پریس کانفرنس جو جدہ میں ہوئی تھی وہاں جو سمیرہ نے گلہ کیا تھا وہ دور ہو گیا ہے۔ہمارے ہاں میں دیکھ رہا ہوں سعودی عرب کی حمایت میں جو ریلیاں نکلیں ان میں فقہی عناصر زیادہ تھے اور لوگوں کا وہ طبقہ جو ذہن سازی کا کام کرتا ہے ان کی ساری دھنیں ایک ہمسایہ ملک کی جانب بجتی نظر آئیں۔ہمارا صحافی سنی سنائی باتوںپے یقین رکھتا ہے اس لئے کہ اسے مواقع ہی نہیں دیے جاتے اس نے کبھی تحقیقاتی جرنلزم کی طرف توجہ نہیں دی۔
سمیرہ خود سے آئیں یا ان کا دورہ کسی نے پلان کیا جس کسی نے کیا خوب کیا۔سعودی عرب تیزی سے بدل رہا ہے۔یقین کیجئے وہاں عورت حجاب پہن کر دفاتر میں کام کر رہی ہیں مجلس شوری کی ممبر ہیں بلدیاتی انتحابات میں حصہ لیتی ہیں۔آخر ہم نے عورت کو محفل میں لاکر کیا کرنا ہے۔کیا مخلوط محافل میں عورت کو مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا؟ چلیں اگر آزاد اور بے راہ رو معاشرے کی بنیاد ڈالنی ہی تو ان عورتوں سے پوچھیں جو مخلوط محافل میں بیٹھنے کی وجہ سے گھر برباد کر چکی ہیں۔سمیرہ عزیز سے تعلق وہاں کے اردو جریدے اردو نیوز اور اردو میگزین کی وجہ سے ہوا جس میں لکھا کرتی تھیں میں بھی اس کا رپورٹر تھا۔سمیرہ کے ماں اور باپ انڈیا اور پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اردو اس کی مادری زبان ہے اسے گزشتہ چند سالوں میں نیشنیلٹی ملی ہے۔
وہ فلم ڈائریکٹر بھی ہیں اور ایک نیوز ایجینسی کو چلا بھی رہی ہیں۔پاکستان کمیونٹی کی محافل میں پردے کے پیچھے سے ان کی متعدد تقاریر سننے کا بھی موقع ملا ہے۔ایسے دور میں جب سعودی عرب یمن کے مسئلے میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے خلاف ایک تگڑی لابی سر گرم عمل ہے سمیرہ کا آنا اس جعلی حبس کو دور کرنے میں مدد ملی ہے جس کے لئے میرے جیسے لوگ کئی برسوں سے کوشش کر رہے ہیں۔پاکستان کو جان لینا چاہئے اگر جمہوریت کے نام پر ہم نے دوستیاں اور دشمنیاں کرنی ہیں تو جن زمینی خدائوں کو ہم راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
انہوں نے تو ایک برادر ملک کے صدر کو چلتا کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے جو ووٹ کی طاقت سے اقتتدار میں پہنچا تھا۔ہمارا نظام حکومت گرچہ برادر ملک سے مختلف ہے لیکن ہمارے کلمہ ء طیبہ کے رشتے نظام حکومت سے زیادہ تگڑے ہیں۔سمیرہ پاکستان آ کر چہک رہی ہیں۔مجھے دلی خوشی ہے وہ ہند اور پاک کو برابر تولتی تھی اب اسے پتہ چل گیا ہو گا کہ پاکستان کتنے پیارے لوگوں کی سر زمین ہے۔میری دلی خواہش ہو گی اردو نیوز کے طارق مشخص بھی ایک بار اور پاکستان آئیں۔سمیرہ آپ کی لمبی کال کا شکریہ۔میں اور کروڑوں پاکستانی مسرور ہیں۔
تحریر : افتخار چوہدری
مائة مرحبا یا اخت سمیرہ فی البلد الثانی باکستان چشم ما روشن دل ما شاد
FOLLOW ME ON TWITTER @ENGRIFTIKHARCH
http://en.wikipedia.org/wiki/Sameera_Aziz