تحریر: لقمان اسد
پورے کا پورا ملک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن کراچی پھر روشنیوں کا شہر لگا دلوں میں وہ لوگ بلاشبہ زندہ رہتے ہیں جو زندہ لوگوں کیلئے کوئی اُمید پیدا کرتے اور کوئی کردار ادا کرتے رہتے ہیں کپتان کی ٹیم کی میزبانی کا اہم فریضہ جس خوبصورت قرینے سے پی پی پی اور ایم کیو ایم نے نبھایا یقیناً اس سے رائے ونڈ کے حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہیئے فیصل آباد کے بدمعاشوں رانا ثنا ء اللہ ،طلال چوہدری اور عابد شیر علی کو بھی اگر اُن میں عقل کی رمک باقی ہے سانحہ ماڈل ٹائون کے گلو سے لیگر فیصل آباد تک کے لیگی تماش بینوں اور اقتدار کے نشہ میں بد مست اُن کے سر پرستوں سے بجا طور پر یہ سوال کیا جانا ضروری ہے کہ سب سے بڑا خطرہ تو کراچی میں ہونا چاہیئے تھا کم و بیش دو دہائیوں سے جہان امن کی بوند بوند کووہاں کے باسی ترستے اور تلاشتے ہیں اور ز ندگی کی اُمید تک جہاں موت کی سولی پرلٹکی ہوئی ہے۔
کراچی جو ایک عرصہ سے ٹارگٹ کلنگ سمیت مذہبی دہشت گردی اور ہر طرح کی بد امنی کا گڑھ بنا ہوا ہے وہان اس سلیقے سے اس قدر پر امن احتجاج کہ نہ کوئی گاڑی جلی ،نہ کوئی فائر ہوا اور نہ کوئی لاش گری تو کیا آج وہاں پی پی پی کی حکومت ختم ہو گئی ہے آج سے وہاں الطاف بھائی کی جماعت کا بوریا بستر گول سمجھا جائے ؟ بلکہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے اس وسعت پذیر سیاسی طرز عمل نے اپنے آپ کو سیاسی شعور رکھنے والے طبقہ کے دلوں میں زندہ کردیا ہے کل اُنہوں نے کراچی کا جو نقشہ کھینچ کر پوری دنیا کے سامنے رکھا تو وہ پوری دنیا کیلئے پیغام تھا کراچی آج بھی پر امن شہر ہے ،کراچی آج بھی پاکستان کیلئے قابل فخر ہے ،کراچی آج بھی روشنیوں کا شہر ہے اور کراچی آج بھی ہر مظلوم اور ہر غریب کیلئے ماں ہی کا درجہ رکھتا ہے اپنے حق کیلئے در بدر ہو کر جنگ لڑنے والے عوام کے زخموں پر کراچی نے مرہم رکھ کر اس بات کا مکرر ثبوت فراہم کر دیا۔
کہ کراچی آج بھی زخموں سے چور انسانیت کیلئے دارالامان ہے پیپلز پارٹی چاہتی تو وہ بھی احتجاج کرنے والے لوگوں کی خلاف ماڈل ٹائوں یا فیصل آباد کا واقعہ دہرا سکتی تھی اسی طرح الطاف بھائی چاہتے تو پرامن لوگوں پر دھاوا بولا جاسکتا تھا اور شہر کا امن دہشت کی بھینٹ چڑھ جاتا لیکن دونوں مذکورہ سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ایک بالغ اور باشعور سیاسی قیادت کا جو مظاہرہ پیش کیا اس پر دونوں سیاسی جماعتوں کا کردار لائق تحسین ٹھہرتا ہے کراچی کے پر امن احتجاج کا توڑ ن لیگی حکومت اور تو کچھ نہ کر سکی۔
جبکہ اس کی سزا اٹھارہ کروڑ عوام کو یہ دی گئی کہ دن بھر تمام ملک کی بجلی بند کرا دی گئی اس لئے کہ یہ ن لیگی حکومت کو کیونکر گوارا ہوتا کہ وہ عام آدمی کے ذہن سے خوف کے اُس تاثر کو زائل کرسکے کہ عمران خان کا ساتھ دو گے تو ریاستی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیئے جائو گے وہ حکومتی رٹ کا مطلب ملک کے باسیوں کو کھلے عام قتل کرنے میں ہی پوشیدہ سمجھتے ہیں سانحہ مادل ٹائون کے قتل عام سے لیکر فیصل آباد کے انصافیئن حق نواز شہید تک حکومت کے حصے میں جو رسوائی اور ذلت کا سامان پید ا ہوا ہے۔
وزیر اعظم اور اُن کے مشیران خاص گویا انہی ذلتوں اور رسوائیوں کو اپنی اہم ترین کامیابیاں شمار کرتے ہیں تھر میں بچوں کی اموات پر جب پہلی بار شور اُٹھا تو وزیر اعظم سندھ پہنچے اور خفگی کا اظہار فرمایا تب شاید دھرنے اور احتجاجا شروع نہیں ہوئے تھے قائم علی شاہ نے کھانے کا اہتمام کیا تو وزیر اعظم نے اس بات کا برا منایا اور کھانا چھوڑ کر واپس آگئے وجہ یہ بتائی کہ سندھ حکومت کی نااہلی کے سبب تھر میں بھوک سے بچے دم توڑ رہے ہیں اور میں ہرن ۔
بٹیر کے گوشت سے لطف اندوز ہوتا رہوں مجھے یہ مناسب ہر گز نہیں لگتا عمران خان نے دھرنوں کا آغاز کیا تو پھر وہ قائم علی شاہ کے شاہ آصف زرداری کے پیچھے بھاگتے نظر آئے اور جب تک ملاقات نہ ہوئی حواس باختہ تھے جبکہ وزیر اعظم کی ساری ٹیم اور پنجاب کے اداکار وزیر اعلیٰ کو پنجاب ہی کے شہر سرگودھا کے ہسپتال میں بیسیوں بچوں کی اموات کی خبر تک نہ ہوئی پنجاب بھر کے سرکاری بدمعاش تھانیداروں کے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم سے اُنہیںآج بھی کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اُنہوں سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں سے کوئی غرض ہے ایسے حالات میں کراچی میںتحریک انصاف کے احتجاج پر پی پی پی اور ایم کیو ایم کا کردار سیاست میں حوصلے، برداشت کے تصور کو اجاگر کرتا ہے جبکہ ن لیگی حکومت سے اپنا رویہ بدلنے کی توقع محض ایک خواب اور خام خیالی ہے کہ جنہوں نے اٹک قلعہ کی قید اور دس سالہ خود ساختہ جلاوطنی سے کوئی سبق تک نہ سیکھا ہو۔
تحریر: لقمان اسد