پاک فوج کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ اس نے رضاکارانہ اپنے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کر دی ہے۔ ایک ایسے علاقائی سنریو میں کہ جہاں پاکستان کو بہت سے دشمنوں کا سامنا ہے اور پاکستانی کرنسی کی قدر بھی آناً فاناً گری ہے، دفاعی اخراجات میں یہ کٹوتی (خواہ اس کا حجم کچھ بھی ہو) بڑی حیرت انگیز اور معنی خیز ہے …… حیرت انگیز اس لئے کہ جب پاکستان کے حریف اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں، پاکستان کو کیا ضرورت آن پڑی کہ اس نے الٹا اضافے کی جگہ کٹوتی کا اعلان کیا…… اور معنی خیز اس حوالے سے کہ ہمارا دشمن نمبر ایک (انڈیا) اس کٹوتی سے عجیب و غریب معانی اخذ کر رہا ہے۔ جب سے اس کٹوتی کا اعلان کیا گیا ہے، ہندوستانی میڈیامیں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور ایسے تبصرے اور تجزیئے کئے جا رہے ہیں جو نہ صرف ہندوستانی پبلک کو خوش کر رہے ہیں بلکہ پاکستانی عوام کے ایک طبقے کے لئے بھی گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی فوج کا حجم / تعداد 6,54,000 افسروں اور جوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے۔ دنیا کی افواج سے اگر اس کا موازنہ کیا جائے تو ازراہِ تعداد پاکستانی فوج چھٹے نمبر پر آتی ہے اور مسلم ممالک میں سب سے کثیر التعداد فوج بھی ہے۔ گزشتہ برس (2018-19ء) میں اس کا دفاعی بجٹ 11ارب تھا جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 3.7 فیصد ہے۔ ساڑھے چھ لاکھ ٹروپس کو برقرار رکھنے اور قابلِ حرب و ضرب بنانے کے لئے عصرِ حاضر میں بہت سے پہلوؤں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب قائم افواج کا رواج نہ تھا۔ بادشاہ سلامت خود اپنے ملک کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا۔ اس کی فوج کے دو حصے ہوا کرتے تھے۔ ایک وہ جو اس کے دارالحکومت اور شاہی محلات کی حفاظت پر مامور ہوتا اور اس کی تعداد کچھ ایسی زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ ہاں جب اعلانِ جنگ ہوتا تھا تو اس کے امراء و زراء اپنے اپنے ذیلی لشکروں کو لے کر دارالحکومت کا رخ کیا کرتے یا اپنے اپنے علاقوں میں بیٹھ کر اپنے سالارِ اعظم کے احکامات کا انتظار کیا کرتے تھے۔ ان کی اپنی کوئی باقاعدہ علاقائی یا ضلعی افواج نہیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے اپنے گھوڑوں اور ذاتی اسلحہ و بارود وغیرہ کے ساتھ تیار رہتے تھے۔ ان کو نہ کوئی باقاعدہ تنخواہ دی جاتی،نہ گزارا الاؤنس اور نہ ان کی دوسری انسانی اور عسکری ضروریات کا دھیان رکھا جاتا۔ ان کی تنخواہ اگر تھی بھی تو برائے نام ہوتی تھی۔ ان کو جب جنگ کے لئے کال دی جاتی تو جنگ کے بعد فتح کی صورت میں ایک مقررہ مالِ غنیمت ان کے حصے میں آتا اور اگر شکست ہو جاتی تو سپاہی کو اپنا، اپنی سواری اور اسلحہ بارود کا بوجھ خود اٹھانا پڑتا تھا۔ جن افراد کا پیشہ سپاہ گری ہوتا تھا وہ زمانہ ء امن میں تقریباً بے کار (بلکہ خوار) پھرا کرتے تھے اور دعا مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ ہمارے ملک پر جنگ مسلط کر اور ہمیں روزگار عطا کر…… مرزا رفیع سودا متقدمین اردو شعرا میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ’مخمس شہر آشوب‘ کے نام سے ان کی کلیات میں موجود ہے جس کا ابتدائی بندیہ ہے:
کہا میں آج یہ سودا سے کیوں تو ڈانواں ڈول
پھرے ہے، جا کہیں نو کر ہو لے کے گھوڑا مول
لگا یہ کہنے وہ اس کے جواب میں دو بول
جو میں کہوں گا تو سمجھے گا تُو کہ ہے یہ ٹھٹھول
بتا کہ نوکری ملتی ہے ڈھیریوں یا تول؟
یہ صورتِ حال ہندوستان میں مغل دور کے اختتام تک باقی رہی۔ 1857ء میں جب انڈیا نے پہلی جنگِ آزادی لڑی تو مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی فوج کی تنظیم و ترتیب بھی یہی تھی اور اس فوج کی شکست کا ایک بڑا سبب بھی یہی بے قاعدہ اور بے تنخواہ مغل فوج تھی۔
اس مغل سپاہ کے مقابلے میں انگریز سپاہ تھی جسے باقاعدہ تنخواہ (ماہانہ) دی جاتی اور اس کی تمام انسانی اور حربی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا۔ اس ریگولر فوج کو قائم فوج کہا جاتا تھا۔ جنگ ہو نہ ہو، اس کو باقاعدہ ماہوار تنخواہ دی جاتی، گھوڑے اور سلاحِ جنگ کی خریداری اور دیکھ بھال بھی انگریزوں کے ذمے تھی، پنشن کا رواج بھی تھا، علاج معالجے کا بھی اور لواحقین کے حقوق کا بھی۔ اس قائم فوج کا آغاز یورپ سے ہوا تھا۔ اس کی تاریخ بتانے لگوں تو کالم ختم ہو جائے گا۔ بس اتنا جاننے کی ضرورت ہے کہ 17ویں صدی عیسوی میں جب سفید فام اقوام براعظم یورپ سے نکل کر دنیا میں جگہ جگہ پھیلیں اور استعمار کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں سب سے زیادہ کشش اسی ”قائم فوج“ کی تھی، اس کے مقابلے میں وطن، مذہب، قوم، قبیلہ، مسلک وغیرہ سب ہیچ تھے۔ ولندیزی، پرتگیزی، فرانسیسی اور برطانوی افواج نے جب برصغیر میں پہلا قدم رکھا تو اپنے ساتھ قائم فوج کی تمام ترغیبات بھی لائیں۔ پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور 1947ء میں جب برصغیر تقسیم ہوا تو برٹش انڈین آرمی ساری کی ساری سٹینڈنگ آرمی تھی جو پاکستان کو بھی ورثے میں ملی اور بھارت کو بھی …… جمہوری طرزِ حکومت بھی افرنگیوں کی دین تھی۔ اس میں سویلین حکومت کو افواج پر کنٹرول حاصل تھا(اور ہے) اسی طرزِ حکومت میں سالانہ بجٹ بھی ہے جس میں دفاعی بجٹ کا حصہ بھی ہے اور یہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔
دفاعی بجٹ ایک کثیر المعانی،کثیر الجہات اور مبسوط وسیع موضوع ہے۔ اس ایک موضوع میں درجنوں ذیلی موضوعات سمائے ہوئے ہیں۔ مثلاً نفری…… ویپن…… ایمونیشن،…… راشن…… تنخواہ…… اخراجاتِ سفر…… جنگی مشقیں …… مختلف طرح کی ریگولر اور ارریگولر عسکری تقریبات…… پنشن،…… مختلف اقسام کی ڈویلپمنٹ جن میں جوہری ڈویلپمنٹ اور میزائلی ڈویلپمنٹ بالخصوص شامل ہیں …… میزائل تجربات…… میڈیکل سہولیات…… رہائشی سکیمیں (برائے ٹروپس)…… کمانڈفنڈ کی دیکھ بھال …… خشک راشن کے علاوہ تازہ راشن…… وردیاں ……ٹرانسپورٹ……(جس میں پہیئے دار ٹرانسپورٹ بھی شامل ہے اور ٹریک دار بھی)…… خانہ ساز انڈگنز دفاعی ڈویلپمنٹ اور علی ہذا القیاس دوسرا بہت سا اَلا بلا…… یعنی ایک دفاعی بجٹ میں بہت سے ذیلی بجٹ(اخراجات)شامل ہوتے ہیں۔ لیکن میرے مطابق سب سے بڑھ کر اہم عسکری موضوع ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آر این ڈی کا شعبہ ہے۔
آرمی نے اگلے روز جن مدات آئٹمز میں کٹوتی کا بالخصوص ذکر کیا ہے ان میں افسروں کی وہ سالانہ ترقی شامل ہے جو اس بجٹ (2019-20ء) میں دی جانی تھی۔ یہ کم سے کم بھی ہو تو بالعموم 10 فیصد ہوتی ہے۔ حاضر سروس افسروں نے اگر اپنی تنخواہ میں اس اضافے کو ختم کر دینے پر خود صاد کیا ہے تو میرے خیال میں یہ ایک بے مثال قربانی ہے جو افواجِ پاکستان کی آفیسرز کلاس نے ملک کی معاشی بدحالی میں حصہ ڈالنے کی غرض سے دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میں سولجرز (سپاہی سے صوبیدار میجر تک) شامل نہیں ہوں گے…… گزشتہ دو تین دنوں میں میری ملاقاتیں عید کی تقریبات کے سلسلے میں درجنوں حاضر سروس سینئر اور جونیئر افسروں سے ہوئیں اور میں نے بالخصوص اس موضوع پر ان کی ذاتی رائے جاننے کی کوشش کی۔ سب نے کہا کہ وہ مہنگائی کے اس سیلاب کی روک تھام میں اپنا حصہ ڈالنے کو تیار ہیں۔ ایک بریگیڈیئر صاحب نے تو یہ کہہ کر سب کو گویا چپ کرا دیا کہ اگر پاکستان حالتِ جنگ میں ہے اور اگر ہمارے آفیسرز اور جوان اس جنگ میں اٹریشن سے دوچار ہیں اور دو دو، چار چار کرکے شہید اور زخمی ہو رہے ہیں تو کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان کی جانی قربانی کے مقابلے میں مالی قربانی (اور وہ بھی نہائت چھوٹے پیمانے پر) کو برداشت کرلیں؟……
اس بحث مباحثے میں درج ذیل نکات پر بھی اتفاقِ رائے تھا:
1۔فوج کے آفیسرز/ جوانوں کو بیرون ملک تربیت دلانے میں کوئی کٹوتی نہ کریں۔
2۔دفاعی پیداواری صلاحیت میں کوئی کمی نہ کریں۔
3۔کاؤنٹر ٹیررازم سرگرمیوں کو نہ صرف جاری رکھیں بلکہ ان کو مزید فروغ دیں۔
4۔ شہداء اور زخمی ٹروپس کے لواحقین کی مزید امداد جاری رکھیں۔
5۔فاٹا کو جلد از جلد ایسے انفراسٹرکچر سے لیس کریں جو ہماری مغربی سرحد کی اوورآل سیکیورٹی کے لئے لازم ہے۔ (مغربی بارڈر کی جنگلہ بندی بھی اس میں شامل ہے)
وزیراعظم نے پاک فوج کی طرف سے ان رضاکارانہ اقدامات کے اعلان کو سراہا ہے۔ حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ اس کٹوتی سے حاصل شدہ رقوم کو فاٹا اور بلوچستان کی ترقیاتی سکیموں پر خرچ کرے گی۔آئی ایس پی آر کے ڈی جی، میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ٹویٹر پیغام میں یہ کہا ہے کہ یہ کٹوتی ملک کی سلامتی اور دفاعی صلاحیتوں اور استعداد کی قیمت پر نہیں کی جائے گی۔ افواجِ پاکستان اپنے دشمنوں کے خلاف کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لئے بھرپور صلاحیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گی۔ تاہم اس کٹوتی کے حجم کے سلسلے میں کوئی اعداد وشمار جاری نہیں کئے گئے اور میرا خیال ہے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے…… ہمیں پیڑ گننے کی ضرورت نہیں، آم کھانے سے غرض ہے …… ماضی میں اس قسم کے ایثار کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اس قسم کی معاشی تنگدستی کی بھی تو ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی …… 11 جون کو اگلے مالی سال کا جو بجٹ پیش کیا جارہا ہے وہ نہ صرف ملٹری بلکہ سویلین اداروں سے بھی اس طرح کی کفائت شعاری کا مطالبہ کرے گا۔ پنجابی والا محاورہ کہ بیٹی کو خبردار کرنے کا مطلب ہے کہ بہو بھی بے خبر نہ رہے!
گزشتہ برس پاکستان نے دفاعی ساز و سامان کی خریداری پر 11.4 ارب ڈالر خرچ کئے تھے جو گزشتہ 15 برسوں میں سب سے زیادہ دفاعی اخراجات ہیں۔اگر موازنہ مقصود ہو تو امریکہ نے 650 بلین ڈالر، چین نے 250 بلین، سعودی عرب نے 68 بلین ڈالر، انڈیا نے 67 بلین ڈالر اور فرانس نے 64 بلین ڈالر سالانہ دفاعی مد میں خرچ کئے …… پاکستان کو باقی ملکوں سے کیا لینا دینا۔ لیکن اگر پاکستان نے ہندوستان کے 67 بلین ڈالر کے مقابلے میں 11.4 بلین کا دفاعی ساز و سامان خریدا تو یہ رقم اپنے دشمن نمبر ایک کا چھٹا حصہ تھی …… اگر اس چھٹے حصے سے پاکستان نے 27 فروری 2019ء کو انڈیا کو بتلا دیا تھا کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور اس کی ”آنے (نئے 6 پیسے) والی جگہ“کونسی ہے تو الحمدللہ آئندہ بھی افواجِ پاکستان اس روائت کو برقرار رکھیں گی! انشاء اللہ!!