لاہور (ویب ڈیسک) مجھے عملی سیاست سے ہمیشہ نفرت سی رہی ہے کیونکہ میں ہجوم سے گھبرانے والا آدمی ہوں ۔میری بیوی مجھے سُستی کا ہمالیہ کہتی ہے تو میں ہنس دیتا کہ ٹھیک ہی تو کہتی ہے ۔ یونیورسٹی کے زمانے میں بھی تقریبا یہی حال تھا۔ لیکن فکری طور پرمیرا جھکاؤ بائیں بازو نامور کالم نگار حسن نثار اپنے پرانے کالموں کے مجموعے پر مشتمل کتاب کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی طرف تھا اس لیے میں نے اپنے کالج کے دنوں کے دوست حفیظ خان کے مقابلے میں جہانگیر بدر کی حمایت کی ۔ اس لیے کہ حفیظ دائیں بازو کا نمائندہ بن کر آیاتھا ۔ اس طرح میں گویا “سُرخا ” تھا لیکن دل کی گہرایوں میں گہرا سبز ۔ رب ،رسول اور قرآن میں تب بھی میری جان تھی ،اب بھی ہے ۔پوری انسانی تاریخ میں اگر مجھے کوئی شخصیت انسپائر کرتی ،راتوں کو جگاتی اور رلاتی ہے تو وہ میرے آقا محمدؐ بن عبداللہ کی شخصیت ہے ۔ معاشی انصاف کے لیے آواز اٹھانا میرے نزدیک تب بھی عبادت تھی ۔ آج بھی عبادت ہے بلکہ افضل ترین عبادت ۔ قرآن خوانی سے زیادہ ہمیں قرآن فہمی کی ضرورت ہے کیونکہ یہی ہمارے مسائل کا حل ہے ۔ اسلام کوئی خالی خولی ،بے روح ،بے منطق عبادات ورسوم کا مجموعہ نہیں ۔۔۔۔۔مکمل ترین انقلاب یے جو انسانی معاشرہ میں دولت اور طاقت کا چند ہاتھوں میں سمٹ جانا پہ کفر ،شرک اور طاغوت ہے ۔ میں بنوامیہ اور اس کے پروردہ ملا، بنو عباس اور اس کے پالتو مُلاکے مذہب کی نہیں ،اپنے دین کی بات کر رہا ہوں جس کی اساس ہی جمہوریت ہے نہ انصاف اور نہ علم کی اہمیت کا احساس ۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ تو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی جبکہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہو چکا اور نوشتہ دیوار ہے ۔ یہ المیہ ہم سب کا ہے ،پوری قوم کا ہے اس لیے میں ذکر کیے بنا نہیں رہ سکا۔ ذاتی زندگی میں میرا پہلا المیہ تو والد صاحب سے اختلاف تھا ۔وہ چاہتے تھے میں سول سروس میں جاؤں جبکہ مجھے ملازمت کے خیال سے بھی وحشت ہوتی تھی ۔یہ کیا زندگی ہوئی کہ آدمی بنجاروں کی طرح یہاں وہاں پھرتا رہے ۔ابھی یہ کشمکش چل ہی رہی تھی کہ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ مجھے ایک غیر مسلم لڑکی سی عشق ہو گیا ۔ اس پر اتنا پھڈا ہوا کہ میں نے گھر ہی چھوڑ دیا اور ماڈل ٹاؤن میں “تکے کبابوں اور دہی بھلوں “کا بزنس شروع کر دیا ۔ ماڈل ٹاؤن کے میرے سارے دوست انہی دکانوں کی دین ہیں جن میں ابرار بھٹی ،انعام اورعارف رو پڑی آج بھی میرے بہت قریب ہیں۔شاعری تو میں کرتا ہی تھا،اب اس میں اور بھی تواتر آ گیا،تازہ تازہ دل جو ٹوٹا تھا۔ میں ہر اتوار کو پاک ٹی ہاؤس میں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں ضرور جاتا تھا۔انہی دنوں ایک انتہائی نرم خو آدمی نے مجھے اپنا ماہنامہ جوائن کرنے کی دعوت دی ،یہ سرور سکھیرا صاحب تھے جن کے “دھنک”نے بعد میں دھومیں مچا دیں ۔ اس سے زیادہ مقبول،موثر اور اوریجنل ماہنانہ پاکستانی صحافت کی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ سرور سکھیرا سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ یہیں پر مستنصرجاوید سے واسطہ پڑا۔انہی دنوں امجد اسلام امجد،عطاءالحق قاسمی،اسلم مکال اور ظفر اقبال سے دوستیاں ہوئیں اور یوں میں صحافت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ لیکن وہ بہت خوبصورت دن تھے،جذبوں اور جدوجہد سے بھرپور دن ۔ پھر سکھیرا صاحب سے علیحدگی ہو گئی اور میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ماہنامہ “تصویر” کی بنیاد رکھی لیکن اس کے پبلشرکی دلچسپیاں کچھ اور قسم کی تھیں اور مجھ سے جوانی میں کام کے علاوہ کچھ اور برداشت نہیں ہوتا تھا ، چنانچہ میں ” تصویر سے نکل گیا وفاقی حکومت کے ایک افسر جہانگیر خان نے بجھ سے رابطہ کیا کہ میں بطور ایڈیٹر ماہنامہ “السیف” کی ادارت سنبھال لوں ۔”السیف” بھٹو صاحب کا “برین چائلڈ” تھا ۔ میں اسلام آباد گیا، دو تین دن میٹنگز ہوتی رہیں، مگر مجھے روکھا پھیکا،بے رنگ شہر پسند نہیں آیا سو میں نے معذرت کر لی مگر جہانگیر صاحب نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ یہ جہانگیر خان بیورو کریسی میں آنے سے پہلے شوبز اور صحآفت سے وابستہ رہ چکے تھے۔ مشہور فلم “چن وے ” میں نور جہاں کے مقابل ہیرو کا کردار ادا کر چکے تھے۔”تیرے مکھڑے تے کالاکالا تل وے منڈیا سیالکوٹیا”جیسا مشہور زمانہ گانا انہی پر فلمایا گیا تھا ۔انہوں نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔آہستہ آہستہ ان کے ساتھ گھریلو تعلقات ہو گئے اور با لآخر میں میں نے اسلام آبد جا کر”السیف” جوائن کر لیا ، تھوڑے ہی عرصے بعد جہانگیر خان کی بھٹوصاحب کے چہیتے بیورو کریٹ وقار احمد سے ٹھن گئی ۔ ساتھ ہی ایڈیٹوریل کے لیے اوپر سے ہدایات بھی آنے لگیں لیکن ہدایات سننے والے کان اللہ نے مجھےعطا ہی نہیں فرمائے۔ سو میں اس سرکاری نوکری پر لعنت بھیج کر واپس لاہور آگیا ۔ گنپت روڈ پر ایک آفس لے کر میں بچوں کی کتابیں شائع کرنے کا ادارہ بنایا ۔ ہر ماہ آٹھ کتابوں کا سیٹ چھپتا اور یہ سب کتابیں میں خود لکھتا تھا۔