اسلام آباد ; نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ان 6 سیاسی رہنماؤں کے نام پیش کردیے جنہیں ممکنہ طور پر انتخابی مہم کے دوران نشانہ بنائے جانے کا خظرہ ہے۔ان 6 افراد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان،
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما اسفند یار ولی اور امیر حیدر ہوتی، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اکرم خان درانی اور حافظ سعید کے صاحبزادے طلحہ سعید کے نام شامل ہیں۔واضح رہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمٰن ملک کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مجموعی طور پر ملک کی داخلی صورتحال کے ساتھ آئندہ عام انتخابات کے تحت سیکیورٹی معاملات کا جائزہ لیا گیا۔سینیٹ میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے نیکٹا کے ڈائریکٹرعبید فاروق کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ نیکٹا کی جانب سے وفاقی وزارت داخلہ سمیت صوبوں کے محکہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کو 12 خطرات کے الرٹ جاری کیے جاچکے ہیں۔ اس موقع پر سینیٹ کمیٹی کے چیئرمین رحمٰن ملک نے ان خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت داخلہ کو خطرات کا سامنے کرنے والے سیاسی رہنماؤں کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری بابر یعقوب کمیٹی کو پہلے ہی آگاہ کرچکے ہیں کہ،
25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے پیش نظر اشتعال انگیزی کا خدشہ ہے، اور ہدایت کی کہ ان الرٹ کو سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔سینیٹر رحمان ملک نے یہ تجویز بھی دی کہ صوبائی محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فوکل پرسن کو نامزد کردیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لیاری کے دورے کےموقع پر پیش آنے والی نا خوشگوار صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موقع پر سنجیدہ نوعیت کے سیکیورٹی لیپس تھے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت، ووٹرز، انتخابی امیدوار کی حفاظت کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بریفنگ لینے کےلیے ہم ان کیمرہ اجلاس منعقد کریں گے۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی)، اسلام آباد وقار احمد چوہان نے کمیٹی کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب ) کو دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے جس میں نیب کی عمارت کو بارود بھری گاڑی سے نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دھمکی موصول ہونے کے بعد ہم نے تفصیلی طور پر عمارت کی جانچ پڑتال کی، اس سے ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت نیب کے قریب ہی واقع ہے جہاں بھاری گاڑیوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے،
جبکہ عمارت کی بیرونی دیوار بھی یکساں تعمیر نہیں کی گئی اور مختلف مقامات سے کمزور ہے، جس کے باعث ہم نے سیکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔ڈی آئی جی اسلام آباد نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ نیب کے پاس 48 سیکیورٹی گارڈز موجود ہیں جبکہ عمارت میں 40 کے قریب سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب ہیں، اس کے علاوہ نیب کی عمارت کی سیف سٹی منصوبے کے تحت لگائے گئے کیمروں کی مدد سے بھی نگرانی کی جاتی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ شہر میں موجود نیب کی دیگر عمارتوں کی سیکیورٹی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے اور اس حوالے سے خامیوں کو دور کرنے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔اس موقع پر کمییس کے چیئرمین رحمٰن ملک نے ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال میں نیب سب کی توجہ کا مرکز ہے اسلیے اس کی فول پروف سیکیورٹی کا اہتمام کیا جائے۔اجلاس میں کمیٹی نے چولستان میں پیش آنے والے افسوسناک واقع کا بھی نوٹس لیا جس میں 3 کم عمر بہنیں لاپتہ ہونے کے بعد صحرا میں مردہ پائی گئیں۔ اس موقع پر مذکورہ بچیوں کے والدین بھی اجلاس میں موجود تھے جنہوں نے کمیٹی کو بتا یا کہ یہ واقعہ 13 جون کو پیش آیا تھا۔اس حوالے سے پنجاب پولیس کے نمائندے نے مذکورہ واقعے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجوہات کا علم نہیں ہوا۔جس پر کمیٹی کے چیئرمین نے پنجاب پولیس پر برہمی کا اظہار کرتےہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ کو اگلے اجلاس میں موجود رہنے کی ہدایت کردی۔