تحریر: وقارانساء
مغرب کے بعد ڈوبنے والے سورج کی سرخی ابھی سیاہی میں تیدیل نہیں ہوئی تھی –وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پردے کو ہثا کرباہر ديکھنے لگی –مختلف سوچيں اس کے ذہن ميں گڈ مڈ ہو رہی تھيں-آج دسمبر کی 31 تاریخ تھی – سال کا آخری دن بھی گزر گيا تھا- بے فکرے اور لاپرواہ لوگوں کے ہلے گلے کی رات تھی –عمر کے گزرتے ہوئے سال نے ان کو یہ سوچ نہيں دی تھی کہ اللہ نے جو زندگی ان کو عطا کی اس ميں انہيں کيا کرنا تھا جو نہيں کيا – اور آنے والا سال کیا سبق ديتا ہے – اپنا محاسبہ نہيں کیا اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا –اور غلطیوں کو نہ دہرانے کا ارادہ نہیں کيا – حقوق اللہ اور حقوق العباد کی کتنی فکر کی – اس رات کو موج مستی کی رات ہی کیوں سمجھ لیا اگلے سال کا سورج جمعتہ المبارک کا دن اور بابرکت ساعتوں کے ساتھ طلوع ہوگا- ساری رات کے غل غپاڑے کے بعد دن میں سو کر ان رحمت بھری گھڑیوں سے محروم رہ جانے والے لوگ ساری رات جاگ کر گزار دیں گے اس کے گھر میں بھی کچھ ايسا ہی سماں تھا-بچے اب بڑے تھے اپنے کزنز اور دوستوں کے ہمراہ ڈرائننگ روم میں موجود تھے- اور نئے سال کی خوشی میں خوب ہنگامہ کر رہے تھے پروگرام کے مطابق کچھ کھا پی کر انہيں شہر کی رونق اور روشنياں ديکھنے نکل جانا تھا –
اس کے شوہر تو گھر پر ہی نہ آئے تھے – ان کا پروگرام اپنے دوستوں کے ساتھ تھا کھانا بنانے کا اس نے کہا تو اس کے بیٹے نے منع کر ديا – کہ وہ سب نئے سال کی خوشی منائیں گے اور ہر ايک اپنی پسند کی چیز باہر سے لے آئے گا – اس لئے اس شور سے گھبرا کر وہ اپنےیکمرے میں موجود تھی وہ خاموشی سے اپنے بستر پر بيٹھ گئی –اور اپنی ذات کا جائزہ لينے لگی – ايک وفا شعار بيوی جو اپنے تنک مزاج شوہر کی ہر ضرورت کا خيال رکھتی- ايک ہمدرد اور بے لوث محبت کرنے والی ماں جو اپنے بچوں کے چہروں پر اداسی يا پريشانی کو ديکھ کرتڑپ اٹھتی- بچے اور خاوند ايک شادی شدہ عورت کی زندگی کی کمزوری –
جس کے سامنے سب رشتے ناطے بے حيثیت لگنے لگتے- ميں کہاں ہوں ؟ وہ اپنے آپ سے سوالی کریی-اپنے بہت پيارے رشتوں کو تو وہ پيچھے چھوڑ آئی تھی اس کے ماں باپ بہن بھائی زندگی کے کئی سال پہلے اس نے بھی تو ايک نيا سفر شروع کيا تھا –وہ سال وہ دن جب اس نے بابل کا آنگن چھوڑا تھا- وہ کتنے برس کی تھی سوال یہ نہیں تھا شادی کرتے ہی وہ کتنے سال کی ہوگئی اسے یہ احساس اس کے رشتوں اور ذمہ داریوں نے دلایا ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے آنسو اس کے دامن ميں جذب ہوگئے – اس نے ان کی نمی کو اپنے دامن میں محسوس کرتے ہوئے سوچا-
ان آنسوؤں کی جگہ یہی ہے اس کا دامن جو ان کو جذب کر لے گا اس کے بچے کھانے یينے مین مشغول تھے اور وہ سوچ رہی تھی اگر میں ادھر نہيں گئی تو کيا ميرے بچوں کو ماں کی ياد نہيں اس خيال سے ايک پھانس اس کے سينے میں چبھ گئی بعض باتیں اتنی بڑی نہیں ہوتيں جتنے بڑے وہ دکھ دے جاتی ہيں اتنی دير ميں دس سالہ احمر ايک پليٹ ميں پيزا اور کيک کا ايک ايک پيس لے کر اندر آيا اور پليٹ اس کے سامنے رکھ دی اس نے احمر کی طرف استفہامیہ نظروں سے ديکھا يہ کھا ليں احمر نے جواب دیا- اب سينے ميں چبھی پھانس نے شديد ٹیس ماری- میرے بڑے بچوں کو خیال نہ آيا؟ يا انہوں نے مناسب سمجھا کہ میں وہاں نہ جاؤں؟ احمر کو تو وہ خود اپنے ھاتھ سے کھلاتی تھی وہ تو خود کھا بھی نہيں سکتا تھا – وہ چاہ رہی تھی کہ وہ اسے پيار کرے ليکن اتنی دير ميں تو وہ جا چکا تھا ميرے بيٹے نے نہ جانے کچھ کھايا بھی تھا يا نہيں وہ بھوکا ہی نہ رہ جائے اس نے دل کی ٹيس کو سہلايا اور تڑپ کر کمرے کے دروازے تک آپہنچی -ماں تھی ناں احمر اسے نظر آرہا تھا -آج وہ کيک کا پيس پليٹ ميں رکھے کھانے ميں مشغول تھا
تحرير: وقارانساء