تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
ویلنٹائن ڈے منانے والو : کیا کبھی اس بات پر بھی سوچا ہے کہ ہماری ہی بہن امریکی جیل میں اپنے جرمِ بے گناہی کی سزا بھگت رہی ہے اُس کی رہائی کے لیے بھی کبھی کسی نے آواز اُٹھائی ہے ۔۔۔۔۔؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی کچھ گماشتے ایسے ہیں جو اپنے آپ کو ماڈریٹ، اپ ٹو ڈیٹ اور لبرل ثابت کرنے کے لیے اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کر رہے ہیں حالانکہ حجاب ہمارے اسلامی کلچر کا لازمی جزو ہے پاکستان میں ہر مذاہب کے ماننے والوں کواپنے کلچر کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے مگر اسلامی اقدار سے اظہارِ نفرت کیوں؟ فرانس میں حجاب پر پابندی دراصل مسلمان بچیوں کے لیے حصول ِ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف تھا۔
فرانس میں نئے قانون کے تحت عوامی مقامات اور عدالتوں میں چہرہ چھپانے پر پابندی لگائی گئی ہے ایسا کرنے والی کسی بھی عورت کو پولیس اسٹیشن بلا کر نقاب اُتارنے کو کہا جاتا ہے حکم عدولی پر ڈیڑھ سو یو رو جر مانہ کیا جاتا ہے اس موقع پر مقامی مسلمانوں نے نئے قا نون پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا مسلم خواتین کا موقف تھا کہ وہ نقاب پہن کر اپنا کام جاری رکھیں گی فرانس میں 5ہزار سے زائد خواتین برقع پہنتی ہیں فرانس چہرے پر نقاب پر پابندی پر عمل کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھااس کے بعد آئر لینڈمیں بھی یہ قانون نافذ کیا گیا، حجاب پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ فرانس میں اس وقت 60لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں وہ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہیں فرانس کی حکومت کو اقلیت کا احترام کر نا چاہیے تھاپا کستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں اقلیت محفوظ ہے اور اُن کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے ہم نے آج تک احتجاج نہیں کیا کہ اقلیتیں مسلمانوں والا لباس استعمال کریں حتیٰ کہ گرجا گھروں میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے والی نن ز اور رہبائیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اپنے مذہبی لباس میں عبادت کریں ،سکھ اپنے لباس میں اور ہندو اپنے لباس اور کلچر کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ہماری طرف سے کبھی بھی تعصب کا اظہار نہیں کیا گیا ، اسی طرح جہاد کوبھی اسلام میں اہم قرار دیا گیا ہے۔
اسلام کی بقا جہاد ہی سے وابستہ ہے مگر امریکی گماشتے جہاد سے یوں بیزار نظر آتے ہیں کہ جو کوئی بھی جہاد کی بات کرتا ہے امریکی گماشتے اُسے اُٹھا کر نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں ؟اس کارِ بد میں ہمارے حکمران بھی برابر کے شریک ہیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی امریکی گماشتوں نے مجاہدہ تصور کرتے ہوئے گوانتے ناموبے اذیت گاہ میں پہنچا دیا ہے ،خانوادہ صدیقِ اکبر کی شہزادی کو کس بھائو امریکیوں کے عوض بیچا گیا؟اپنا شجرہ نسب سادات سے جوڑنے والے سیاہ رو ڈکٹیٹر اور بُزدل جرنیل جو آج ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے نے اپنی کتاب میں خود بردہ فروشی کا اعتراف بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کیا ہے کہ ”سینکڑوں افراد کو امریکہ کے حوالے کر کے ہم نے لاکھوں ڈالرز وصول کیے ہیں ” جس طرح زمانہ جاہلیت میں عورت کی مظلوم ذات ذلت اور بے بسی کا شکار تھی،عزت و توقیر کا کوئی لفظ اس کے لیے وضع نہیں ہوا تھا۔ ابن آدم کی ہوس کا نشانہ بننے والی یہ صنف نازک مجروح جسم اور تارتار دامان عصمت کے ساتھ اپنی عزت و ناموس اور حقوق کے لیے سر گر داں تھی ۔آفتاب رسالت ۖجلوہ گر ہوا تو اس کی تابناک کرنوں نے نجاست و غلاظت سے لتھڑی ہوئی نسوانیت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے شرف و وقار کے دیدہ زیب تاج پہنائے ہمارے ”سُوٹڈ بُوٹڈ ”حکمرانوں کو ہمت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی دولت کے پُجاری موجودہ حکمرانوں کو احساس ہوا ہے کہ وہ امریکہ کے صدر باراک او بامہ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے خالی خولی احتجاج ہی کر سکیں ،احتجاج کیسے کرتے اور کس منہ سے کرتے ؟ جنہوں نے ہمیشہ غیروں کے ٹکڑوں پر اپنی زندگی کی سانسیں باقی رکھی ہوں اُن کی غیرت اور اسلامی حمیت کب سلامت رہتی ہے ؟وہ اور تھے جنہوں نے یورپ کی سرزمین میں ببانگ ِ دہل کہا تھا کہ
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش ِ فرہنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ میں خاک ِ مدینہ و نجف
ہمارے موجودہ حکمرانوں کو فرصت ہی نہیں کہ وہ عافیہ صدیقی کو یاد ہی کر لیں اُن کی تو ترجیحات ہی دوسری ہیں کہ ملکی سرمایہ کو کیسے اونے پونے داموں نجکاری کے نام پر اپنے نام کرانا ہے حالانکہ کسی بھی زندہ قوم کا اصل سرمایہ اُس کے غیرت مند وہ افراد ہوتے ہیں جو ملک و قوم کی خاطر مرتے اور جیتے ہیں قوم کا سرمایہ دُختر ِ مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں جو اِس وقت امریکہ کے قبضے میں ہے اُس کے حصول کے لیے ہماری تمام تر سیاسی ، دینی ، سماجی تحریکیں اور تنظیمیں چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں اور تو اور انسانی حقوق کی چیمپیئن اور مغربی سوچ کی حامل اور مغربی افکار کی پہریدار این جی اوز کے نمائندوں عاصمہ جہانگیروں ، عاصمہ جیلانیوں ، ہود ،ہنود ،یہود بھائیوں، مبشر حسنوں ،نام نہاد مولوی محمود اشرفیوں ،تحسین مفتیوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ، مغرب کی نوکری ، چاکری کرنے اور اُن کی دہلیز پر چند ڈالرز کے عوض سجدہ ریز ہونے والے کیسے اپنے ”آقائوں ” کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں ؟بے حسی ، مادہ پرستی ، بے غیرتی ، بے حمیتی کے اس جھُلستے صحرا میں ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدوجہد کرنے والی تن تنہا عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ہیں جو میں سمجھتا ہوں ”آبِ زُلال ” کی حیثیت رکھتی ہیں ۔۔۔عافیہ کی بہن فوزیہ نے بھی کیا کیا جتن کیے ، لیکن راکھ کے ڈھیر میں توانا چنگاری نہ سلگی ، سُلگی بھی تو شعلہ نہ بن سکی ایسی چنگاریوں کو شعلہ بننے کے لیے غیرت و حمیت کی آکسیجن چاہیے جو اس آب و ہوا میں کمیاب ہوتی جا رہی ہے مجھے اکثر کہنا پڑتا ہے کہ ”جہاں قومی خودی کی نگہبانی فدویوں کے ہاتھ آجائے اور ریاستی انا کی پاسبانی خواجہ سرائوں کی ذمہ داری ٹھہرے وہاں بیٹیاں اسی طرح جِنسِ ارزاں بن جایا کرتی ہیں۔
مادر پدر آزاد سوسائٹی شترِ بے مہار کی طرح ہے جو جس کے جی میں آتا ہے اُسی طرف چل پڑتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی اورمریکی دہشت گردی کے خلاف محراب و منبر سے بھی توانا آواز آنی چاہیے اور ہمارے علماء کرام اپنے خطبوں میں عوام کو امریکہ کی دہشت گردی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے بھی آگاہ کریں ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی دُختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مجاہدانہ کاوشوں کو نوجوان نسل تک پہنچانے میں بُخل کا مظاہرہ کر رہا ہے بلکہ امریکہ کی بد بودار، کثیف ، غلیظ اور تعفن زدہ فضا کو عام کرنے میں اپنا ”خاص”رول پلے کر رہا ہے کیونکہ ہم سراپاکمرشلائز ہو کر رہ گئے ہیں ہر ادارہ عورت کو اشتہارات کی زینت بنا کر اُس کی تذلیل کر رہا ہے اور عورت بھی ہوس کے طبلے کی تھاپ پر سرکاری و اشتہاری محفلوں میں رقص و سرور میں مصروف ِ عمل نظر آتی ہے وہ عورت جو کبھی چادر اور چار دیواری کی آبرو ہوا کرتی تھی اور اُس کے گھر کی دہلیز پر شرم و حیا باندی بن کر کھڑے ہوا کرتے تھے تو پھر اُس کی پاکیزہ گود سے حضرت امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جیسے مردانِ حُر جنم لیتے تھے آج جب سے عورت غیروں کی ثقافت اپنانے لگی ہے اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے لگی ہے اس کی گود سے لُٹیرے ، فصلی بٹیرے ، نیب زدہ ،بدعنوان ، چور اُچکے ، بد معاش ، بد کردار اور اسلامی اقدار و شعائر کی پا مالی کرنے والی نسل ِ بد پیدا ہونے لگی ہے۔
امریکی دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کے آگے اگر جرات و حمیت ،غیرت ِ ملی اور قومی شعور کا بند نہ باندھا گیا تو پھر آنے والی نسل کو یہ بد تہذیبی ،بد تمیزی اور امریکی مداخلت کا طوفان بہا کر لے جائے گا اور پھر کوئی باوردی بے غیرت حکمران اپنی تسکین کی خاطر چندڈالرز کی ہوس میں قوم کی کسی ماں ، بہن اور بیٹی کو امریکہ کے پاس گروی رکھوا دے گا اس پر وطن عزیز کی تمام تر دینی ، سماجی اور سیاسی تحریکیں چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں خانقاہوں کے سجاد گان بھی لمبی تان کے سو رہے ہیں جبکہ یورپ اور مغرب ہماری ثقافت اور غیرت کی دھجیاں بکھیرنے پہ تُلا ہوا ہے مادر پدر آزاد،فارن فنڈڈ ، فارن پیڈ اور میڈ این جی اوز مختاراں مائی کے مسئلے پر تو آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں اور پلے کارڈ لے کر ”پلے بوائز ” و ”کال گرلز ” کا تحفظ کرنے کے لیے پریس کلبز کے باہر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہیں اور پھر ڈالرنائنز ڈ این جی اوز کی حمایت میں امریکی سفارت خانہ بھی حرکت میں آجاتا ہے امریکی راتب پر پلنے والوں کی ”حالت زار” دیکھ کر ٹیلی فون کی گھنٹیاں کھڑکنے لگ جاتی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کے دل بھی ساتھ ساتھ دھڑکنے لگ جاتے ہیں مگرجینوئن دُختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مسئلے پر اس طرح کی خاموشی ،چہ معنی دارد ؟ ”امن کی آشا ” والے بھی حکمرانوں کی اس بے حسی پر چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں امریکی دہشت گردی باقاعدہ حکمرانوں کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے اور حکمران فقط اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کے لیے ایک دوسرے کے ہاں حاضری ہی کو منزل ِ مقصود تصور کر رہے ہیں اور اپنے کیسز کو ختم کرانے کے لیے کل کے حریف آج کے حلیف بنے ہوئے ہیں امریکی دہشت گردی کی مخالفت میں اور اس کی روک تھام میں کوئی پالیسی بیان جاری نہیں کیا ایوانِ وزیر اعظم اور ایوان ِ صدر نے دُختر ِ مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حوالے سے ”چُپ کا روزہ ” رکھا ہوا ہے اور نہ معلوم یہ خاموشی و چُپ کا روزہ کب کھُلے گا۔
ہمارے حکمران بھی کاش ہوس کے طبلے کی تھاپ پر رقص کرنے والی کے پائوں میں پہنی پائل کی جھنکار سے خواب ِ غفلت سے بیدار ہو جائیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے عملی قدم اُٹھا سکیں ! ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا امریکہ کی جیل میں قید ہونا دراصل اس بات کا غماز ہے کہ وہ خالصتاََ اسلامی اور فکری سوچ رکھنے والی قوم کی بیٹی ہیں جس کی وجہ سے وہ امریکی گماشتوں کو دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح چُبھتی رہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ کائنات ِ اسلام میں مدینہ طیبہ کے بعد دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی دوسری بڑی نظریاتی و فکری ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ہر لحظہ ،ہر لمحہ ،ہر گام قادیانیت نواز گماشتوں کو دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہے اور ہر گھڑی اور ہر آن گندے گٹر میں رینگنے والے گندے کیڑے کی طرح ان کے کثیف و غلیظ اذہان میں ہلچل مچائے رکھتی ہے۔
قادیانیت نواز گماشتے اپنے ”تھنک ٹینکس ” کے ذریعے ڈالروںاور پائونڈز کی جھنکار میں تفرقہ و انتشار کا بیج بونے اور اس کو تن آور درخت کی شکل دینے کے لیے آئے روز گھنائونے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور افتراق و انتشار کے اس گھنائونے منصوبے کی ابتدا ہمارے اذلی دشمن بھارت کے ہائی کمشنر کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں کی گئی تھی جو 1974ء میں لندن کی زمستانی ہوائوں اور پراگندہ فضائوں میں ہوا تھا جس کے انتظام وانصرام میں وہ لوگ پیش پیش تھے جن کو 7ستمبر 1974ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیا تھا پاکستان کو فرقہ واریت کی دلدل میں زبر دستی دھکیلنے والے اس گروہ کے ”اکابرین ” نے اول اول اس منصوبے کے لیے 10کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کر کے ایک مخصوص فنڈ قائم کیا تھا اور پھر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہر سال اپنے گھنائونے نیٹ ورک کو پھیلانے کے لیے اس رقم میں اضافہ ہوتا رہا اوربا خبر ذرائع کے مطابق کم و بیش 50ارب روپیہ سالانہ خرچ کیا جا رہا ہے اور اب اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہمارا اذلی دشمن بھارت ،ہمارا ”آقا” امریکہ ،اسرائیل اور برطانیہ بھی اپنے اپنے حصے کا فنڈ جمع کرا رہا ہے گاہے گاہے وطن میں شوشے چھوڑتا رہتا ہے اور سرحد پار بیٹھا ہمارا دشمن اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مذہبی ،لسانی ،علاقائی اور صوبائی بنیادوں پر حصے بخروں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
اس مقصد کے لیے وہ ڈالروں کی ہوس کے طبلے کی تھاپ پر رقص کرنے والی این جی اوز کو بھی زرِ خطیر دریا دلی سے فراہم کر رہا ہے مغربی ٹکڑوں پر پلنے والی ان این جی اوز کا فقط ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ جیسے تیسے ہو سکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے ان میں فرقہ واریت کا ایسا بیج بو دیا جائے جو آنے والی نسلوں کو اسلام سے بر انگیختہ کر دے ،آج یہی مغربی راتب اور امریکی ”بھاڑے ”پر پلنے والی این جی اوز کی شکل میں ”گائیں اور بھینسیں ”توہین رسالتۖ کاارتکاب کرنے والی ملعونہ آسیہ مسیح کے جیل جانے پر سیخ پا ہو رہی تھیں اور ہمیں انسانیت کا درس دینے پر تلی ہو ئی ہیں کہ انسانیت کے ناطے آسیہ مسیح کو معاف کر دیا جائے بلکہ ان کے ”پاپ”بینڈکٹ نے بھی بینڈز کی دُھنوں میں یہ راگ الاپتے ہوئے کہا تھا کہ ”توہین رسالت ۖ کا قانون ختم اور آسیہ مسیح کو جلد رہا کیا جائے ”مگر انہی ڈالر نائزڈ اور پائونڈ نائزڈ این جی اوز کی ”بیگمات”اوران کے ”پاپوں ”بینڈکٹوں کو بے گناہ اور معصوم پاکستانی قوم کی مسلم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نظر نہیں آئی جن کو نام نہادتحفظ انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ کی گماشتہ عدالت نے 86 سال کی قید با مشقت سزا سنا دی اور امریکہ کی تاریخ میں کسی کو سنائی جانے والی یہ سب سے زیادہ سزا ہے اس پر تو نام نہاد دانشوروں کے کسی گروہ ،دینی تعلیمات سے نابلد کسی اینکر پرسنزاورانسانی حقوق کی چیمپیئن این جی اوز کے کسی کونے کھدرے سے ذرا سی بھی آواز بلند نہیں ہوئی اور نہ ”پاپ” بینڈکٹ جی کو خیال آیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی رہا کیا جائے۔
حالانکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے کسی دھرم ،کسی مذہب اور کسی شخصیت کی توہین نہیں کی تھی پھر بھی ان کو اتنی بڑی سزا سنادی گئی ،کیا ڈاکٹر عافیہ کسی کی ماں ، بہن اور بیٹی نہیں تھی ؟عیسائیوں کے”پاپ”بینڈکٹ نے یہ بیان دے کر دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری ہے اور دنیا میں امن و سلامتی کے عمل کو سبوتاژ کر نے کی گھنائونی کوشش کی ہے ناموس رسالت ۖ کے لیے مسلمانوں کا بچہ بچہ کٹ مرے گا مگر توہین رسالت ۖ قانون کو ختم نہیں ہو نے دے گا مغربی ٹکڑوں پر پلنے والے بے حس امریکی پٹھو،امریکی عقوبت خانے سے جُرات و استقامت کا پہاڑ بنے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی یہ صدا بھی سن لیں کہ ”کائنات کی تمام تر سلطنتیں رسول ِ رحمت ۖ کے نعلین مقدس کی نوک پر قربان کی جا سکتی ہیں ” مجھے یاد پڑتا ہے کہ معروف دانشور اور صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود نے اپنے ایک پروگرام ”میرے مطابق ”میں سابق صدر پاکستان کی سندھی ٹوپی پر اپنے الفاظ میں تنقید کی تھی ،تو اس وقت حکومتی حلقوں اور ”جیالوں ”نے صدر کی سندھی ٹوپی پر تنقید کو سندھی ثقافت کی توہین قرار دے کر پورے سندھ میں با لخصوص اور پورے پاکستان میں با لعموم”تقدس سندھی کلچر ” مہم چلا ڈالی تھی اور اس دن سے لے کر آج تک اب ہر سال باقا عدگی سے اپنے کلچر کی پاسداری اور حفاظت کا یوم ”تقدس سندھی کلچر ”منایا جاتا ہے۔
سوچنے والی بات ہے جو لوگ اپنے سیاسی” قائد” کی سندھی ٹوپی پر تنقید کو برداشت نہیں کر سکتے عام مسلمان یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ دنیائے کائنات کے عظیم ترین قائد ،کمانڈر انچیف امت کے غم خوار آقاء ،رسول رحمت ،والضحیٰ کے چہرے والے ، یسین کے سہرے والے ، مازاغ البصر کے کاجل والے ، الم نشرح کے سینے والے طہٰ کے تاج والے ، دو جگ کے راج والے ،عرش کی معراج والے ،والیل کی زُلف والے ، مزمل کی چادر والے ، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی ٰ کے لختِ جگر ،حضرت سیدہ طیبہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے لعل ، دُرِ یتیم ،بے سہاروں کے سہارا ، بے چاروں کے چارا ، منگتوں کے آقا ،جانِ کائنات ، شانِ کائنات ، آنِ کائنات ، پہچانِ کائنات ، عرفانِ کائنات ، فخرِ موجودات ، مقصودِ کائنات ، سید ابرار ،احمد مختار ،حبیب ِ غفار ،خاصہ کِرد گار ، بدر ُالدُجی ٰ ، آفتابِ ھُدیٰ ، صدر ُالعلیٰ ، نور الھدیٰ ، کہف الوریٰ ، صاحب ِ جود و سخا ، خیر الوریٰ ، خواجہ دوسَرا ، پیکر تسلیم و رضا سید و آقا ، کعبہ اصفیا ء ، قبلہ اغنیا ء ، مجسم روح فزا، سرور انبیاء ، حُسن ِ صبر و رضا ، دستِ عطا ، راحتِ قلوبِ عاشقاں ، رحیم ِ بے کساں ، حُبِ غریباں، قبلہ زاہداں ، کعبہ قُدسیاں ، آرائش ِ نگارستانِ چمن ، رونق ریاض گلشن ، سکونِ دردمنداں ، راحتِ خستگاں ، قرار ِ بے قراراں ، دمسازِ غریباں ، مایہ بے مائیگاں ،حضور نبی کریم ۖ کی شان میں کوئی توہین کرے اور وہ بر داشت کر جائے ؟ ڈاکٹر علامہ اقبال نے مسلمانوں کے اسی والہانہ ، بے ریا اور بے لوث جذبے کی اپنے کریم آقاء ۖ سے محبت کی تصویر یوں کھینچی ہے کہ ”یہ مسلمان فاقہ کشی کی بدولت تو زندہ رہ سکتا ہے مگر اس کے قلوب و اذہان سے اگر روح ِ محمد ۖ نکال لی جائے تو یہ فوراََ مر جائے گا ”کیونکہ ایک مسلمان کی زندگی کی سانسیں گنبدِ خضراء سے وابستہ ہیںاگر اس کو گنبدِ خضراء کی روحانی تسکین اور ٹھنڈک سے الگ کر لیا جائے تو زمانے کی گرمی اسے جھُلساکے رکھ دیتی ہے مسلمانوں کا مرنا جینا غلامی رسول ۖ سے وابستہ ہے۔
دُختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کاقصور صرف اور صرف یہ ہے کہ اپنے کریم آقا ۖ کی عظمت کے گُن گاتی تھی اور سیرت عائشہ و فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روشنی میں زندگی گزارنے اور دوسری خواتین کو اس پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کیا کرتی تھی ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی خالصتاََ ایک مومنہ اور مجاہدہ ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست ِ مدینہ کے بانی پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت حضور نبی کریم ۖ کے آفاقی پیغام کی بالا دستی کے لیے اپنا تن من دھن حتیٰ کہ سب کچھ قربان کردیا اور اپنے کریم آقاۖ کے فر مان لَا ےُومِنُ اَحَدُ کُم حتَیٰ اَکُونَ اَحَبَ اِلیہِ مِن وَالِدِ ہِ وَ لَدِ ہِ وَالنَاسِ اَجمَعِین کی روشنی میں اُمت ِ مسلمہ کی مائوں ، بہنوں اور قوم کی بیٹیوں کودُختر ِ مشرق نے شاعر ِ مشرق کی زبان میں یہ آفاقی ، کائناتی پیغام دیا کہ
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دَہر میں اسم ِ محمد ۖ سے اُجالا کردے
اور
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
دختر مشرق ڈاکٹر عافیہ صدیقی جن کا حوصلہ ہمالیہ سے بلند اور عزم چٹان سے زیادہ مضبوط ہے امریکی عقوبت خانے بھی اِن کے جواں عزم حوصلوں کو شکست نہیں دے سکے بظاہر اِن کے جسمانی اعضاء پر خبیث امریکیوں کا کنٹرول ہے مگر دل آج بھی یاد ِ مُصطفیٰ ۖ میں دھڑکتا رہتا ہے اور زباں سے قرآن کریم کی تلاوت کا نور ایسے برستا ہے جیسے صُبح صادق کے وقت شبنمی قطروں سے رس ٹپکتا ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سارا فیضان ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے اپنی ماں ہی سے حاصل کیا ہے کیونکہ ماں جس قدر عظیم ہوتی ہے بیٹی بھی اُس قدر عظمت کی بلندیوں پر فائز ہوتی ہے مقدس اور نور کے سانچے میں ڈھلی حضرت بی بی فاطمہ جیسی ماں اگر طیبہ ، طاہرہ ، صادقہ ،آمنہ تھی تو پھر اُن کی مقدس ، پاکیزہ اور مطہر گود مبارک سے بیٹی بھی حضرت بی بی زینب ایسی پیدا ہوتی ہے جو میدان ِ کرب و بلا میں 72پاکیزہ تن شہید کراکے بھی یزید کے دربار میں نہایت ہی جُرات و استقامت کے ساتھ خطاب فر ماتی ہیں اگر ماں عظیم نہ ہوتی تو آج ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی عقوبت خانے میں یوں جُرات و استقامت کی تصویر بنی نظر نہ آتی ماں ہی ایک ایسا شجر سایہ دار ہے جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں اولاد کو سکون و راحت نصیب کرتی ہے ماں اپنی اولاد کے لیے سراپا شفقت و محبت ہوتی ہے۔
دنیا کے تمام تر رشتے مفادات کی کچی ڈوری سے بندھے ہو ئے ہیں مگر کریم و رحیم آقا نبی حضرت محمد ۖ کی مبارک و محترم ہستی کے بعد ایک ایسا رشتہ ایسا بھی ہے جو مفادات کے بندھنوں سے آزاد ہے اور وہ پاکیزہ ، اخلاص کے سانچے میں ڈھلا اور بے غرض و بے لوث رشتہ ماں ہی کاہے ،کسی نے ماں کو کیاریوں میں کھلتے ہوئے گلاب کے پھول کی مہک سے تشبیہہ دی تو کوئی بلبل کی چہک سے متعارف کراتا ہے ،کسی نے شبنم سے تو کسی نے بادِ نسیم کے جھونکوں سے ،مگر ان تمام تر حیثیتوں سے بڑھ کر حیثیت جس کی ہے وہ ماں ہی ہے ،پھول کچھ دیر کے لیے کھِلا پھر مُرجھا گیا،بادِ نسیم بھی کچھ دیر کے لیے چلتی ہے پھر وہی بادِ سموم کے تھپیڑے ،بُلبُل بھی صرف باغوں میں چہکتی ہے، باغ جب اُ جڑ جاتے ہیں تو بُلبل پھر چہکنابھی بھول جاتا ہے ،ہاں ہاں مجھے کہنے دیجئے کہ اس کا ئنات ِ رنگ و بو میں ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کو ربِ لم یزل نے سدابہاری کے روپ سے نوازا ہے ، بہار ہو یا خزاں ، گرمی ہو یا سردی ، صبح ہو یا شام ، عسرت ہو یاےُسرت ، خس و خاشاک سے تیار کردہ جھونپڑی میں رہائش پزیر ہو یا سنگِ مر مر سے آراستہ و پیراستہ عالیشان محل میں تشریف فرما ہو ، جوانی ہو یا بڑھاپا، اولاد کے لیے اس کے پیار و محبت ،شفقت اور دل لگی میں ذرا برابر بھی فرق نظر نہیں آئے گا کیو نکہ اللہ رب العزت نے ماں کی ہستی میں اپنی ربو بیت کو گوندھ دیا ہوا ہے جس طرح وہ کریم رب انسانوں کو ہر حوالوں ، ہر حیثیتوں سے ، ہر جہتوں سے ہر لمحہ نوازتا رہتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ربوبیت کے پیکر میں ڈھلی عظیم ترین ہستی ماں بھی اولاد کے لیے ہر عمر میں سراپا شفقت و محبت کا سر چشمہ ہو تی ہے ،سیانے کہتے ہیں ”جس گھر میں ماں کی عزت نہیں وہ گھر ضرور بر باد ہو گا ”اور یقیناََ ایسے ہوتے دیکھا بھی گیا ہے کیو نکہ ماں برکت دینے کے لیے پیدا کی گئی ہے ماں کے بغیر گھر میں برکتیں نازل نہیں ہوتیں جہاں ماں کا احترام ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو تا ہے۔
اپنی اولاد سے سراپا مامتا کے پیکر میں ڈھلی ماں کی محبت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ۖ چند صحابہ کرام کے ساتھ جنگل کے سفر پر روانہ ہوئے چلتے چلتے ایک صحابی نے چڑیا کے گھونسلے سے چڑیا کے بچے نکال لیے ،اس پر چڑیا نے شور مچانا شروع کر دیا ، کائنات کے لیے سراپا رحمت بن کر تشریف لانے والے کریم و شفیق آقاۖ نے پو چھا ، کیا ماجرا ہے ؟ عرض کیا !چڑیا کے بچے میرے پاس ہیں اس لیے شور کر رہی ہے آپ ۖ نے فرمایا کہ ”چڑیا کے بچے واپس گھونسلے میں رکھ دو ” الفاظ کی دنیا میں ،،ماں ،، ہی ایک ایسا لفظ ہے جس کو کسی بھی زبان میں اگر ادا کیا جائے تو ادائیگی کے وقت دونوں ہونٹوں کا ملنا قدرتی امر ہے گو یا اس بات کی دلیل ہے کہ ،،ماں ،، ہی ایک ایسی عظیم ہستی ہے جو اس دنیا میںٹوٹے اور شکستہ دلوں کو جوڑنے کا سبب بنتی ہے ۔ہندی میں میا،انگریزی میں ممی یا مدر ،فارسی میں مادر ،عربی میں اُم ،اردو میں ماں،امی یا اماں،پنجابی میں ماں،ان تمام لفظوں کو ادا کرنے سے جوڑنے کا تصور اور ملاپ کا خیال ذہن کے دریچوں اور سوچوں کے روزنوں میں ابھرتا ہے اگر اس ہستی کا وجود دھرتی پر موجود نہ ہو تو دل شکستہ، حوصلے پست ،ارادے ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور سوچیں منتشر ہو جاتی ہیں ہمتیں شکست و ریخت کا مقدر ٹھہرتی ہیں ماں ایک ایسی ہستی ہے جو زندگی کے جھلستے صحرا میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو تی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں مصائب کی کڑاکے کی دھوپ میں ماں کی ہستی ایک شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتی ہے جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھائوں تلے زمانے کی گرمی سے جھلسا ہوا انسان سکون لے کر یوں محسوس کرتا ہے گویا جنت کے درخت تلے سکون لے رہا ہے اس لیے مقولہ ہے کہ ”ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ” ہمارے بے حس حکمرانوں اور ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو کیا خبر کہ امریکی عقوبت خانے میں استقامت کی تصویر بنی اُس ماں کے دل پرکیا گزر رہی ہو گی جو سالہا سال سے اپنے لختِ جگر سے دور ہے اور اُس کی مامتا کتنی بے چین ہوگی ؟ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک مجاہدہ اور مومنہ کے ساتھ ساتھ ماں بھی ہے اُس کے سینے میں بھی ایک جیتا جاگتا دِل ہے جو اپنے بچوں کی محبت میں دھڑکتا رہتا ہے موجودہ حکمرانوں کی طرح پتھر کی سِل نہیں ہے کہ جس پر کوئی احتجاج اثر ہی نہیں کر رہا ، بے حِس حکمرانوں کو نہ تو کچھ سُجھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے اپنی آنکھوں پر بے حِسی اور بے غیرتی کی پٹی باندھ رکھی ہے اور اپنے کانوں پر کاگ چڑھا رکھے ہیں ۔۔۔۔نہ جانے اُس عظیم ماں کے بچوں پر کیا بیت رہی ہو گی جنہوں نے عرصہ دراز سے اپنی ماں کی شکل تک نہیں دیکھی جس ماں کے بارے میں رسول ِ رحمت ۖ نے ارشاد فر مایا کہ ”جنت ماں کے قدموں تلے ہے ” اور مردوں سے کہا کہ تم اپنی ماں کے قدموں میں رہا کرو تاکہ اس واسطے سے تم بی بی پاک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے قدموں میں پہنچ جائو ، جب وہاں پہنچ گئے تو اللہ تمہیں جنت میں حضور ۖ کی معیت عطا فر مادے گا ”اولاد کو اپنی ماں یعنی جنت سے جُدا کرنے والے اُمتی کل روز محشر رسول ِ رحمت ۖ کو کیا منہ دکھلائیں گے ؟اور جنہوں نے ہوس ِ زر کے طبلے کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے ایک ماں کو کافروں کے سُپرد کیا ہے یقیناََ اُنہوں نے جیتے جی اپنے آپ کو دوزخ کا ایندھن بنا ڈالا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکی عقوبت خانے اوراذیت گاہ میں بھی قال اللہ و قال الرسول ۖ کی صدا کو بُلند رکھا ہوا ہے اور اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی میں بر طانوی سامراج کے پٹھوئوں نے قال اللہ و قال الرسول ۖ کی صدائے حق بلند کرنے والے ہمارے اکابرین کو جذیرہ انڈیمان کالے پانی کی سزا دی اور آج امریکی سامراج نے اُسی بدعتِ بد کو گوانتے نا موبے جیسی اذیت گاہیں بنا کر زندہ رکھا ہوا ہے مگر یاد رہے کہ جس طرح ہمارے اسلاف اور اکابرین کے کارنامے آج اُمت کے سینے میں دلِ کی طرح ہمیشہ دھڑکتے رہتے ہیں اسی طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کارنامے بھی ہمیشہ قوم کے ماتھے کا جھومر بنے رہیں گے امریکی پٹھو لاکھ اُس کے گردے نکالیں ، دانت توڑیں ، ناک توڑیں ، اُس کی یاد داشت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں مگر ایک بات یاد رکھیں کہ جس طرح اُمیہ بن خلف نے حضرت بلال پر اپنے تمام تر ریاستی مظالم کے کوڑے بر سائے ، جھُلستے صحرا میں تپتی ریت پر ننگی پیٹھ لٹا کر سینے پر وزنی پتھر رکھ دیے تھے اور ہاتھوں میں کیل گاڑھ دیے تھے اور کہا تھا کہ رب کی وحدانیت سے باز آجائو اور ہُبل و منات کو رب مانیں مگر پھر بھی بازارِ مصطفیٰ ۖ میں بکنے والے اس عاشق رسول ۖ کی زباں سے ایک ہی جملہ ادا ہوتا رہا ”اَحد اَحد اَحد ”۔۔۔۔۔۔۔عالم تخیل اور تصور میں جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے بھی عافیہ صدیقی موجودہ عہد کے اُمیہ بن خلف (امریکہ)کے ظلم و ستم کے جواب میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتی ہے کہ ”ظالمو۔۔۔تم میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو مگر میری زباں اور جسم کے ہر ٹکڑے سے ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” کی صدا بلند ہوگی ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ پاک قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ظالموں کے شکنجے سے جلد رہائی عطا فرمائے (آمین)۔
تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
چیئرمین : ایوان ِ اتحاد پاکستان ، خطیب مرکزی جامع مسجد مدینہ شریف، اعوان ٹائون، لاہور 03314403420
e mail :jamianoor786@gmail.com
www.facebook.com/nouman qadir