رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو ہم خود بناتے ہیں دوسرے وہ جو ہمیں بنے بنائے ملتے ہیں میاں بیوی کا رشتہ ایسا رشتہ ہے جو ہم خود بناتے ہیں ا ور نبھاتے ہیں خواتین پر بڑھتے ہوئے گھریلو تشدد کے پیش نظر پنجاب اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل منظور کر لیا گیا ہے ،کہا جارہا ہے کہ بل پر عمل درآمد سے خواتین پر گھریلو تشدد ،نفسیاتی معاشی استحصال بد کلامی اور سائبر کرائم جیسے جرائم پر قابو پانے میں مدد ملے گی ا س بل سے معاشرے میں عورت کو باوقار مقام حاصل ہوگا اور قانونی تحفظ بھی فراہم ہوگاااجبکہ اسکے برعکس یہ بل مردوں کے حقوق پر ضرب کاری ہے اس بل کے بعد ایسا نہ ہو کہ مردوں کے حقوق کیلئے ایک اور بل منظور کراناپڑے جہاں تک عورت کے تحفظ کی بات ہے تو عورت کو تحفظ خاندانی ہوتا ہے قانونی نہیں اس بل کی رو سے گھریلو تنازعات میں مرد کو تنہا کر دیا گیا ہے بل پر عمل درآمد سے حقوق اور فرائض کی تمیز ختم ہوجائے گی مرد ہی عورت کا محافظ ہے پیدائش سے لے کر بیٹی بہن بیوی بہو اور ماں عورت کے سبھی رشتے مقدس ہیں اگر کوئی عورت خلاف شریعت کام کر رہی ہو تو مرد کو اپنی بیوی سے بستر الگ کرنے کا حکم ہے برے کام سے روکنے کیلئے مار کا بھی حکم ہے مگر چہرے پر نہیں اور نہ ایسی مار کہ جس سے زخم آجائیں دوسری طرف تحفظ حقوق نسواں کے بل کی منظوری کے بعد ایسا کرنے سے مرد کو دو دن گھر سے باہر رہنا ہوگا مصالحتی ادارے کے آفیسر کو گھر کے اندر تک رسائی ہوگی ذرا سوچئے ہمارے معاشرے میں جس گھر کے باہر پولیس والے کھڑے ہوں محلے دارا س کے متعلق باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں جب عورت مرد کو پکڑوائے گی تو معاشرے میں اس خاندان پر کیا اثرات پڑیں گے گھروں کے نظام خاندانی نظام سے چلتے ہیں قانون سے نہیں شریعت کسی بھی صورت ایسے اقدام کی ہر گز اجازت نہیں دیتی کہ عورت مرد پر حکمرانی کرے حقوق نسواں بل سے مرد اپنی بیوی بیٹی سے رات کو لیٹ گھر آنے پر نہیں پوچھ سکے گا اگر سختی کرے گا تو الٹا گھر سے باہر ہوگا مردوں کو ٹریکنگ کڑے پہنا کر گھر پر کام کاج کیلئے رکھ لیا جائے اور عورتوں کو کھلی چھٹی دے دی جائے کہ دن کو آئیں یا رات کو دیر سے گھر لوٹیں اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو ،کیا قائد اور اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا ؟یہ ملک تو لا االہ اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا ہے مگر افسوس بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے شریعت سے متصادم قوانین بنائے جارہے ہیں مولانا فضل الرحمان مردوں کی طرفداری نہیں حق کی بات کر رہے ہیں ان سے کسی کو جتنا مرضی اختلاف ہو مگر انکو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے ،مولانا سمیع الحق اور حافظ محمد سعید کی طرح دیگر علما کرام اور دینی جماعتوں کوا س بل کی راہ روکنی چاہئے کیونکہ اس بل کے بعد مردوں کے پاس کوئی راہ نہیں بچتی کہ وہ کدھر جائیں اپنی فریاد کس کو سنائیں مغرب کے ایجنڈے مردوں کو زنجیریں بناکر پہنائے جارہے ہیں پنجاب حکومت کس بیرونی ایجنڈے پر کم کر رہی ہے کہ غیر شرعی قوانین بنائے جارہے ہیں مردوں کو اختیار ہے کہ اپنی عورتوں کوشرعی احکام کی خلاف ورزی پر سمجھائیں نہ سمجھیں تو سختی کریں مگر اس کیلئے حدود ہیں لیکن اس بل میں مردوں کو عورت کے پاؤں کی جوتی بنا کر شریعت کا بھی مزاق اڑانے کی کوشش کی گئی ہے مرد اور عورت اگر کوئی ایک غلطی پر ہو ایک خاندان کا نقصان ہوتا ہے مگر اس بل کے بعد ایک خاندان نہیں قوم کا نقصان ہوگا اور ذمے دار ایوانوں میں بیٹھے حکومتی نمائندے ہوں گے امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے لاگو کئے گئے قوانین سے قوم کا کوئی فائدہ متوقع نہیں ،آئین پاکستان میں یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی قانون خلاف شریعت نہیں بنایا جائے گاا یسا قانون پاس نہیں کیا جائیگا جوا سلام کے منافی ہو ،حقوق نسواں بل منظور کرکے کونسے آئین کی تابعداری اور فرمانبرداری کی جارہی ہے جبکہ آئین پاکستان پر عمل کرکے خواتین پر تشدد کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے نہ کہ مغرب کی تقلید کر کے یہ اٹل حقیقت ہے کہ مرد ہی عورت کاا محافظ ہے چوڑیاں عورت کا زیور ہے گر مردوں کو ٹریکنگ کڑے پہنا کر مردوں کی تذلیل کی جائے گی تو عورتوں کا محافظ کون ہوگا کیا جو عورت مرد کو ذلیل ورسوا کرے گی قانون کے شکنجے میں دبوچے گی توکیا دوبارہ مرد وعورت آپس میں خلوص ومحبت سے رہیں گے یا بات علیحدگی پر جا کر ختم ہوگی عورت کو مرد کے سامنے برابر کھڑا کرنے سے اگر بات علیحدگی تک جاتی ہے تو کیا بعد میں عور ت اس قابل ہوگی کہ سارے معاملات خود نمٹا سکے حقیقت میں اس بل کا نام نہاد خواتین کے تحفظ کی تنظیموں کو تو فائدہ ہوسکتا ہے مگر کسی خاندان کا نہیں بلکہ نقصان ہی ہوگا س بل کو پاس کر کے عورت کو نام نہاد آزادی دے کر ذلت و رسوائی کے کنویں میں دھکیلنے کے مترادف ہے