تحریر: لقمان اسد
کئی برس قبل بھی وہ یہ نازیبا حرکت کر چکے اور کئی بار یہ ناپاک عمل وہ دھرا چکے، فرانس، جرمنی اور ناروے۔ کرہ ارض پر61 اسلامی مملکتوں کا وجود بظاہرتو کسی نعمت خداوندی سے کم محسوس نہیں ہوتا مگر ان کا شمار کیا کیجئے جو ریت کے ہی فقط ٹیلے او رمٹی کے بت ہی فقط ثابت ہوئے ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ جب غالباً 2005 اور 2011 میں وہ اس جرم کا ارتکاب کرچکے تو اس پر مذکورہ 61 مملکتوں کے سربراہان بروئے کار آتے ایک منظم احتجاج وہ دنیا کے سامنے رکھتے اور اعلانیہ کم ازکم حضور پر نور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی مبارک و مقدس ہستی کی عزت و تکریم کی خاطروہ سبھی دنیاوی الائشوں اور خواہشوں کو لات مار کر ایک ہی پیج پر متحد نظر آتے مگر وہی اس معاملہ میں بھی سلوک انہوں نے برتاکہ سبھی اپنی اپنی بولی بولتے اور اپنا اپنا راگ الاپتے دیکھائی دئیے کسی نے ان پر کوئی فتویٰ الگ سے صادر کیا تو کسی نے گھربیٹھے ہی مذمتی بیان داغ دئیے محض فتاویٰ دینے یا مذمت کرنے کا یہ عمل تو نہیں تھا جیسا گناہ ہوتا ہے۔
جیسی حرکت ہوتی ہے ۔یا جس طرز کا کوئی قبیح فعل ہوتا ہے اسکے سدباب کی غرض سے اسی اندازمیںاور اس حد تک جاکر عملی جدوجہد کا کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت درپیش اور درکار ہوتی ہے ۔فتویٰ ان کے متعلق کیا دینا ہے کہ وہ اگر امام النبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو برحق مانتے تو ایسا گناہ سرزد کرنے کی ان کا ضمیر کبھی انہیں اجازت دیتا؟وہ کلمہ گو تو نہیں کہ ان پر فتویٰ صادر کیا جائے اور اسی پر ہی محض اکتفا۔ مذمتی قراردادوں سے اگر ایسے بدترین کرداروں کا سد باب ممکن ہو پاتا توتب بھی یہ ایک راست اقدام ٹھہرتا اس ضمن میں تو ایک عالمگیر تحریک کی ضرورت درکار ہے اس سے بڑھ ک یہ کہ مغربی مفکرین ،ان کے مذہبی راہنمائوں اور دانشوروں سے مکالمے کا آغاز بھی ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے فورم پربھی اسلامی ممالک کی قیادتیں یہ معاملہ اٹھائیں۔ مسلم دنیا کے بڑے مرکز سعودی عریبہ کے حکمرانوں اور علماء پر بھی اس حوالے سے بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے عالم اسلام اس اہم معاملہ پران کی طرف بہت امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے ۔مغرب کی نظر میں یہ بدتر جرم بھی گو آزادی اظہار کاایک پہلو اور انداز ہے مگر کیا وہ نہیں سمجھتے کہ مسلم دنیا کے سینے میں ایک ایسا خنجر وہ پیوست کررہے ہیں کہ جس کے زخم کی تاب لانے اور ایسے ناپاک واقعات کووہ فراموش اور برداشت کرنے کی گویا سکت اپنے تائیں نہیں رکھتے۔انہیں یہ باور کرایا جائے کہ اہل مغرب تو خود اپنے فکری ورثہ پر ڈاکہ زن ہیں کہ انہی کے ہر اس دانشور نے جس کا شعوروادراک اسے علم کی ان سرفرازیوں اور بلندیوں تک لے گیا جہاں سے اس پر ابدی سچائیوں کے در وا ہوئے اور اہل یورپ جنہیںاپنا فکری اثاثہ تصور کرتے اور علمی رہنما مانتے ہیں۔
اس کے پیش نظر وہ اس باب میں کتنی بڑی بددیانتی کے مرتکب ہیں کہ انہی کے اہل علم ،شعراء ،ادباء اور دانشوروں نے جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ممتاز شخصیت کے متعلق جو شاندار ریمارکس دئیے،انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور انہیں دنیا کی معتبر ترین شخصیت قرار دیا فقط اہل مغرب ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب کے علماء نے ،ہر خطہ کے اہل قلم و اہل دانش نے چاہے وہ جس بھی مذہب کے پیروکار تھے غیر متنازعہ طور پر پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
جانے معاشرے کہاں جا کھڑے ہوئے ہیں کس قدر تذبذب اور ہیجانی کیفیت ان پر طاری ہے کہ دانستہ بھی اگر ایسی حرکات سے وہ لطف اندوز ہوتے اور طمانیت پاتے ہیں تو کیا ان کی ترقی ،علمی پذیرائی یا ثقافتی اور صحافتی آزادی کا خمیر اور ضمیر ایسی خواہشات میں مضمر ہے کہ وہ کائنات کی اس معتبر ترین ،عظیم المرتبت اور لاثانی شخصیت کی سرعام ایک گھنائونے طرز عمل کے سبب توہین کرتے رہیں کہ کائنات کے ہر پڑھے لکھے شخص نے جنہیں اعلیٰ و ارفع تسلیم کیا جن کے اعلیٰ اخلاق و اعلیٰ مرتبے کی شہادت پر بلا امتیازہر رنگ و نسل ہر مذہب اور مسلک کے جید لوگوں نے مہر تصدیق ثبت کی اہل مغرب اور اس کے حکمراں بھی اس پہلو پر ذرا غور کریں آخر ایسے گھٹیا ترین آزادی اظہار کے عمل سے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ (جاری ہے۔۔۔۔)
تحریر : لقمان اسد