2002 ء سے قبل ترکی کی حالت یہ تھی کہ وہ کشکول بدست آئی ایم ایف کی چوکھٹ پرناک رگڑرہاتھا’معیشت آخری سانسیں لے رہی تھی۔رجب طیب اردوان کی آمد سے قبل ترکی جمودوخمود کی کیفیت سے دوچارتھا۔ ترک قوم ضعف فکروعمل کاشکارچلی آرہی تھی۔ ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں اور آمریت نے مایوسیوں کوجنم دیا اور ترک قوم کے وقار کو بلند کرنے کی بجائے اسے مزید اندھیروں میں دھکیل دیا۔
اردوان نے ترک قوم کونہ صرف تنہائی اورتاریکی کے دور سے نکالا بلکہ اسے اوج ثریا تک پہنچادیا۔ آج ترکی آگے بڑھ کردنیا میں فعال کردار ادا کر رہا ہے اور بہت سے معاملات میں تاریکیوں میں ڈوبی دنیا کے لیے مینارہ نورہے۔ کوڑی کوڑی کامحتاج ترکی اردوان کی قیادت میں پاکستان سمیت دنیاکے 17ملکوں میں امدادی منصوبے چلا رہاہے۔ ترکی ایک نئی شان سے دوبارہ جی اٹھاہے۔ اردوان کااوالعزم کردار’بے لوث خدمت اوربے مثال جدوجہد راستہ ہموار کرنے میں ممددمعاون بنی۔
2003 ء میں رجب طیب اردوان ساری رکاوٹیں عبور کرکے جب وزیراعظم منتخب ہوئے تو پھرانہوں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے۔استنبول کی میئرشپ کے دوران اپنی کارکردگی سے قوم کا دل جیتنے والا اردوان وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے سے زیادہ لگن کے ساتھ قوم کی خدمت میں جت گیااور قدم قدم پر دنیاکو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ سیکولر فاشسٹ حکمرانوں کی بدترین نااہلی’ کام چوری’ غفلت شعاری اورنان ایشوز میں الجھنے کی روش کے باعث معیشت جاں بلب ہوئی تو اردوان نے ملکی معیشت کی سانسیں بحال کیں، لیراکی قدر بڑھائی’سیاسی استحکام قائم کردیااور ترکی کے طول وعرض میں ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھادیا۔ 2003ء سے اب تک کے مختصرعرصے میں طیب اردوان نے ایک سے بڑھ کرایک شاندار کامیابی قوم کی جھولی میں ڈالی ہے۔ عالمی معاشی غارت گروں کا دریوزہ گرترکی آج الٹا عالمی مالیاتی اداروں کو قرض دے رہاہے۔وہ یورپی یونین جو ترکی کے ہاتھ میں سالہاسال سے موجود الحاق کی درخواست حقارت سے ٹھکراتی چلی آرہی تھی آج وہ الٹا ترکی کی مستحکم معیشت پررال ٹپکارہی ہے۔
رجب طیب اردوان کاویژن ابھی مکمل نہیں ہوا’وہ بہت دور تک جاناچاہتے ہیں۔اس کے لیے ترک قوم کوان کو پہلے سے بڑھ کر سپورٹ کرنا ہوگا۔وہ ترکی کے نظام حکومت کو پارلیمانی سے بدل کر صدارتی نظام میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔صدارتی نظام کی خوبیاں کسی سے مخفی نہیں۔ آج دنیا میں جتنی بھی مستحکم ریاستیں ہیں،ان کی اکثریت صدارتی نظام کی حامل ہے۔دنیاکی بڑی سپرپاور امریکہ کی کامیابی کاسبب وہاں کا صدارتی نظام ہے۔روس ‘فرانس ‘چین ‘برازیل سبھی صدارتی نظام کی حامل ہیں۔
ترکی میںر یفرنڈم کے بعد جوصدارتی نظام آئے گا’وہ ہوبہو امریکی صدارتی نظام ہے۔ امریکہ کے صدارتی نظام کی تو دنیاتعریف کرتی ہے۔اگریہی نظام اردوان ترکی کومضبوط بنانے کے لیے لاناچاہتے ہیں تواس کی مخالفت میں مغرب امام بن گیاحالانکہ صدارتی نظام سے پارلیمنٹ کے آئینی اختیاراور احتسابی قوت میں اضافہ ہوگااور صدر کامواخذہ بھی ہوگا۔
اس وقت ترکی کے لوگوں میں شعور پیدا ہوچکاہے۔ پراپیگنڈے کے طوفان کے باوجود وہ یہ جان گئے ہیں کہ ترکی کو دنیا میں سپرپاور بناناہے تو یہاں طیب اردوان کی قیادت میں صدارتی نظام لاناہوگا۔ترکی اور یورپ کے ممالک میں بسنے والے ترکوں کومخاطب کرتے ہوئے اردوان نے کہاکہ صدر کی حیثیت سے میری ان سے درخواست ہے کہ وہ ملت کے نام پربیلٹ بکسوں کارخ کریں۔ ان کے راستے میں چاہے جتنی بھی رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں’ ان کے ووٹ مغرب کے لیے ان رکاوٹوں کابہترین جواب ہوں گے۔اہل مغرب ہمارے شہریوں کے ساتھ ہمارے قلبی تعلق سے حسدکرتے ہیں لیکن وہ خواہ کچھ بھی کرلیں،اس قلبی تعلق کوتوڑ نہیں سکتے۔ صدر اردوان نے کہا کہ ہمارا مقصد اپنے عوام کوزیادہ بہتر خدمات فراہم کرناہے اور جمہوریہ ترکی کے قیام کی 100ویں سالگرہ 2023ء کے لیے ہم نے جن اہداف کاتعین کیاہے’ان تک صدارتی نظام کے ساتھ ہی رسائی ممکن ہے۔ طیب اردوان نے کہا کہ 15جولائی کودہشت گرد تنظیم فیتو کی بغاوت کے موقع پرملت کے ایمان اور حب الوطنی کامشاہدہ کیا اور16 اپریل’15جولائی کابدلہ چکانے کا دن ہے۔
ترکی جوغیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ بندرگاہ کی حیثیت اختیارکرچکاہے ۔ترکی کااستحکام اور طیب اردوان کی قیادت میں روز افزوں ترقی کے علاوہ اسلام کی طرف پیشرفت نے مغرب کو اسلام فوبیامیں مبتلا کردیاہے۔ یورپ اپنی ہی پالیسیوں اورسروے رپورٹس سے خائف ہے جن کے مطابق وہ وقت دورنہیں جب یورپ میں مسلمانوں کی تعداد غالب ہوگی اوران کی تہذیب وثقافت سب کچھ مٹ جائے گا۔ اسی وجہ سے مغرب کاحسد و بغض اور اسلام فوبیاسب باہرآگیاہے۔جرمنی’ فرانس’ آسٹریا اورہالینڈ وہ ممالک ہیں جہاں ترک تقریباً55لاکھ آباد ہیں۔جرمنی میں ان کی تعداد 30 لاکھ ہے۔ان کے ووٹوں کی مجموعی تعداد17لاکھ بنتی ہے جو ترکی میں صدارتی نظام کے قیام میں بنیادی اور یقینی کرداراداکرسکتی ہے۔ حالات حاضرہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تمام ووٹ صدارتی نظام کے پلڑے میں جانے والے ہیں۔صدراردوان نے یورپ میں مقیم مسلمانوں سے کہاکہ وہ تین کی بجائے پانچ بچے پیدا کریں ۔تاکہ مسلمان عددی برتری اور ووٹ سے وہاں کا یاپلٹ دیں۔
مغرب کو پہلے ہی ترکی کا اسلام کی طرف پلٹناہضم نہیں ہورہاتھا۔حجاب اوڑھنے سے لے کرایا صوفیہ کو عبادت کے لیے کھولنا’فریڈم فلوٹیلا کے معاملے پر اسرائیل کاگھٹنے ٹیکنا’ برما’فلسطین ‘کشمیراور شام کے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاناصرف طیب اردوان کا ہی کارنامہ ہے۔ مغرب کو یہ تشویش ہے کہ اگر رجب طیب اردوان صدارتی نظام لانے میں کامیاب ہوگئے توترکی پہلے سے زیادہ مضبوط اوراسلامی نشاة ثانیہ کاامین ہوگا۔ ترکی کی ترقی کو مغرب اسلام فوبیا سے تعبیرکرتاہے اور اس کے سارے حربے طیب اردوان کاراستہ روکنے کے لیے ہیں۔اسی روگ کا ردعمل ہے کہ مغرب نے صدارتی مہم کے لیے اپنے ممالک میں رائے عامہ ہموار کرنے کی اجازت نہیں دی۔تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ دیا۔ترکی کے وزیرخارجہ کوہالینڈ کے شہر روٹرڈم میں انتخابی جلسوں سے خطاب کے لیے اجازت نہ دی گئی۔اسی طرح وزیربرائے سماجی بہبود فاطمہ بتول قایاکو ہالینڈ نے ترک سفارتخانے میں بھی داخل نہ ہونے دیا۔ مغرب نے تمام انتخابی سرگرمیوں پرپابندیاں لگاکراپنے آمرانہ رویہ کا کھل کر اظہارکیا۔اپنے وزراء کے ساتھ ہتک آمیز سلوک پر اردوان نے کہا کہ مغرب نے جس رویے کامظاہرہ کیا وہ ترک وزیر نہیں بلکہ عالمی ڈپلومیسی کی ہتک ہے۔
ترکی نے ہالینڈکے سفیرکوانقرہ آنے سے روک دیااور جب تک بحران موجود ہے ،ہالینڈ کے حکام کے ہوائی جہازوں پر ترکی کی سرزمین پراترنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔اردوان نے کہا یورپ میں نازی اور فاشسٹ پھیل رہے ہیں مگرترکی انہیں ہرجگہ جواب دے گا۔اردوان نے ہالینڈکونازیوں کی باقیات قرار دیتے ہوئے کہاکہ ہالینڈ کوجمہوریت اوربین الاقوامی سفارتکاری کاسبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔دنیاکومساوات امن واعتدال کادرس دینے والے مغرب کاملک ہالینڈ ہی ہے جس نے 1991ء سے1996ء تک یو این کی امن فوج میں شامل ہوکر آٹھ ہزار بوسنیائی مسلمانوں کاقتل عام کیا۔ حالانکہ جنگ کے دوران بھی طبی خدمات سرانجام دینے والوں پر گولی نہیں چلائی جاتی۔اگر ہالینڈ ہوتاتوگولی چلادیتاکیونکہ اس کی اصلیت سربرہنٹسا(بوسنیا) قتل عام سے سب پرظاہرہے۔ طیب اردوان نے اپنے ردعمل میں کہاکہ ریفرنڈم کے لیے آئینی ترامیم کوقبول نہ کرنے والے دراصل دہشت گردو ںکے ساتھ ہیں۔جرمنی دہشت گردوں کابے رحم سپورٹرہے۔ جرمنی نے 4500 کر ددہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جو ترکی میں خودکش حملے کراتے ہیں۔صدرطیب اردوان نے حال ہی میں جرمن چانسلر کو اسلام پسند دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کرنے پر پریس کانفرنس میں ٹوک کرکہاکہ وہ مسلمان صدرہیں اوراسلام کا تحفظ کریں گے۔اس کاحقیقی نظارہ 16اپریل کے بعدہوگا کیونکہ اب ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت کے طریقہ عمل کے ذریعہ مزید نہیں دھمکایا جا سکتا۔