پڑھیے: پھٹیچر کہنے پر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی دعوت مسترد
پاکستان سُپر لیگ کا دوسرا سیزن شروع ہوا اور قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان صاحب کی جانب سے بیانات کا لامتناہی سلسلہ (پانامہ کیس کی ڈھولک کے درمیان) بھی زور پکڑتا گیا۔ پہلے کہا کہ پوری لیگ پاکستان میں ہونی چاہیے۔ پھر بیان آیا کہ بین الاقوامی کھلاڑی آجائیں تو فائنل زبردست ہو۔ لیکن جوں ہی لاہور میں فائنل میچ کی خبر آئی تو خان صاحب نے اس کو پاگل پن اور حماقت قرار دے دیا اور پھر فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کو مبارکباد بھی جَڑ دی۔پاکستان میں ہر شخص تقریباً ایک دہائی کے بعد کرکٹ اپنے گھر آنے کا جشن منا رہا تھا کہ خان صاحب اور ان کی جماعت کے نمائندوں نے ٹکٹوں کے حوالے سے میڈیا میں شور مچا دیا۔ کسی کو تمام میچ میں فری انٹری کا بخار ہوا تو کسی نے دعویٰ کیا کہ حکومتی جماعت نے سیاسی جلسہ رکھا ہے لہٰذا اپنے ووٹرز کو ٹکٹیں مفت بانٹ دی ہیں۔خان صاحب کی منطق نرالی جنہوں نے اپنے نام کے وی آئی پی انکلوژر کا ٹکٹ فری کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ میں یہ راگ بدل بدل کر الاپتے رہے کہ کلب لیول کھلاڑی آئیں گے، سیاسی جلسہ ہے، پانامہ کیس سے عوامی توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ہمارے ہاں مانا جاتا ہے کہ جس پلیٹ فارم سے آپ کو عزت، شہرت اور محبت مِلی ہو اور جہاں سے رزق کمایا ہو، وہاں کا احترام انسان آخری دم تک بھولتا نہیں اور اس شعبے سے وابستہ افراد سے ایک جذباتی لگاؤ بھی ہو جاتا ہے۔شاید اسی لیے پی ایس ایل فائنل میچ میں شریک بین الاقوامی مہمان کھلاڑیوں کے لیے “پھٹیچر اور ریلو کٹا” جیسے الفاظ ایک سابق کرکٹر کی جانب سے ادا کیے جانا نہایت نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہماری مہمان نوازی کی روایات کے تمام حوالے رہے ایک جانب، لیکن میرا مسئلہ اس سے کچھ مختلف ہے۔ “افریقہ سے پکڑ کر لے آئے” جیسے حقارت بھرے الفاظ میں چھپا نسلی تعصب جس کو پس منظر میں جانا تک نصیب نہ ہوا، سیدھا قالین کے نیچے دبا دیا گیا۔
لوگ ریلو کٹا کا مفہوم سمجھتے رہے جبکہ خان صاحب کی جماعت اس اصطلاح کے وہ معنی تلاش کرتے ہلکان ہوتی رہی جو عوامی و میڈیائی غصے کو کچھ ٹھنڈا کرسکیں۔ کہا جاتا ہے مسلسل صفائی اور تاویلیں دراصل غلطی کا اعتراف بن جاتی ہیں۔ لیکن اعتراف کے تو کیا کہنے جب عمران خان صاحب اپنے اس غیر رسمی یا “آف دی ریکارڈ” بیان پر باجماعت ڈٹ گئے۔ اور اس گفتگو کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چلانے والی خاتون رپورٹر کو ایک جانب صحافتی آداب سکھاتے رہے جبکہ دوسری جانب اس جماعت کی سوشل میڈیا ٹیم ان خاتون کی کردار کشی کے علاوہ ان پر “توہینِ رسالت” میں ملوث ہونے کا الزام جڑتی رہی۔اس سب کے علاوہ ایسی پوسٹس بھی ان کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے پھیلائی جاتی رہیں کہ ‘بے غیرت میڈیا’ نے ملک کے لیے عمران خان کی تمام خدمات بھلا کر صرف ان کے ایک لفظ ‘پھٹیچر’ پر ساری توجہ مرکوز کر دی ہے۔
جانیے: عمران خان کے ’پھٹیچر‘ کہنے کے میانداد بھی حامی
بھئی مانا کہ خان صاحب ایک عظیم کرکٹر رہے۔ اچھے کپتان تھے۔ ورلڈ کپ فاتح ٹیم کی کپتانی کی۔ انسانیت کی خدمت میں کینسر ہسپتال اور تعلیمی ادارہ تعمیر کروائے۔ تو کیا یہ تمام باتیں انہیں آزادی فراہم کرتی ہیں کہ کسی بھی کرکٹر کے کریئر اور صلاحیتوں کو ارزاں سمجھں؟
کیا دنیائے کرکٹ میں اب کوئی بڑا کرکٹر پیدا نہیں ہو سکتا چاہے اس نے دو ورلڈ کپ جیتے ہوں؟ کیا انسانیت کی خدمت کسی بھی انسان کو حق دیتی ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں آباد انسانوں کو تحقیر سے دیکھا جائے؟ کیا سر ویوین رچرڈز اور دیگر سابق کرکٹرز کا پاکستان آنا آپ سے ہضم نہیں ہوا؟جس کرکٹ میچ کو آپ سیاسی جلسہ قرار دے رہے تھے، وہاں ان دو اشخاص کے خلاف نعرے لگوائے گئے جنہوں نے پاکستان میں اس میچ سے اُس دہشت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس میں ہم برسوں سے سانس لے رہے تھے۔ بجائے اس کے کہ ان دہشتگردوں کو یک زبان ہو کر جواب دیا جاتا جو ہمارے کھیل کے میدان ویران کرتے رہے اور ہم سے ہماری خوشیوں اور ثقافت کا ہر رنگ چھین لینا چاہتے ہیں۔ آپ نے خود اس موقعے کو سیاسی اور تقسیمی لمحہ بنا ڈالا۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی، جیسا آغاز میں کہا کہ “یاداشت بڑی کمزور ہے” خان صاحب نے یہ تمام تضادات پہلی دفعہ نہیں دکھائے اور نہ ہی یہ پہلا موقع تھا کہ نا مناسب الفاظ کا چناؤ سامنے آیا۔ اوئے، گیلی شلوار، اپنے ہاتھوں سے پھانسی، ڈر کے مارے ان کا پیشاب نکل جاتا ہے، زندہ لاشیں، مولوی ڈیزل، سول نافرمانی میں ہُنڈی اور حوالے کی ترغیب دینا، محمود اچکزئی کی پشتون چادر کا ٹھٹھا، قائدِ حزبِ اختلاف کو وزیرِاعظم پاکستان کا پی اے کہنا، امپائر کی انگلی، اسفند یار ولی ہوں یا متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما یا بلاول یا پھر مختلف قومی ادارے اور ان کے سربراہان سب کے لیے نازیبا الفاظ کنٹینر سے جاری ہوتے رہے۔
مزید پڑھیے: غیرملکی کھلاڑی پاکستان میں بہترین سیکیورٹی کے گن گانے لگے
پنجاب، کشمیر اور سندھ کے علاقوں میں سیلاب آ گیا لیکن آپ کنٹینر سے نہ اترے۔ اس تمام مختصر ری کیپ میں اہم بات یہ ہے کہ سب اپنے ہی ملک اور اس سے وابستہ معاملات رہے۔ اب آ جائیے پاکستان آنے والے مہمانوں کی جانب۔ ہم آج یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاں فلاں کھلاڑی کو ریلو کٹا یا پھٹیچر کیوں کہا لیکن بھول رہے ہیں کہ دو سال قبل چینی صدر تک کو “اوئے” کیا جا چکا ہے۔پہلے عوام کو کنٹینر سے باور کرواتے رہے کہ انویسٹمنٹ نہیں سی پیک چینی قرضہ ہے اور چینی صدر تو آ ہی نہیں رہا۔ اسی روش کی بدولت سری لنکا، مالدیپ اور قطر جیسے ممالک کے سربراہان نے اپنے دورے ملتوی کیے۔ جب چینی صدر پاکستان آئے تو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت سے جس طرح ان کی جماعت کے کچھ افراد نے روکا وہ الگ داستان ہے۔مسئلہ کشمیر پر مشترکہ اجلاس ہو یا ترک صدر کا پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب، خان صاحب اپنے عظیم مؤقف پر ڈٹ کر بائیکاٹ کرکے بیٹھے رہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ایسا پہلی دفعہ ہوا، درست نہیں اور یہ سب آخری دفعہ بھی نہیں ہوا۔
عمران خان صاحب، فیصلوں میں اٹل ہونا الگ بات ہے اور زندگی و سیاست کے ’گرے ایریاز’ کو سمجھ کر وقت کی نبض سمجھنا الگ معاملہ ہے۔ صرف خود کو صراطِ مستقیم پر چلنے والا واحد مسیحا سمجھنا اور ساری دنیا پیتل کی گردانتے جانا سیاسی مستقبل میں کوئی بڑا میچ جیتنے کی کنجی نہیں ہو سکتا۔ یا پھر ہم مان لیتے ہیں کہ آپ ڈونلد ٹرمپ کی انتخابی مہم سے متاثر ہو گئے اور وہی حربے آزمانے چلے ہیں۔
پڑھیے: پاکستان کا ڈونلڈ ٹرمپ
یہ تو رہی دو روز قبل تک کی کہانی۔ کل ہمارے دو رکن قومی اسمبلی نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے اس تحریر میں تو گنجائش نہیں، ایک اور تحریر میں ہی احاطہ کیا جا سکتا ہے۔