تحریر : اختر سردار چودھری
آب گاہ سے مراد ایسے علاقے اور جزائر ،سمندر سے ابھرنے والے خطے ،ایسے پانی کے ذخائر جن میں چھ میٹر تک پانی کی گہرائی ہو ۔زمین پر بستے انسانوں نے اس بات کو جب محسوس کیا گیا کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ۔جس کے سنگین اثرات دنیا پر ظاہر ہونا بھی شروع ہو چکے ہیں ۔جو رفتہ رفتہ دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے ۔تودنیا کے 95 ممالک نے 2 فروری 1971 ء کو ایران کے شہر رامسر میں کنونشن آن ویٹ لینڈ کا انعقاد کیا ۔جس میں آب گاہوں کے تحفظ کے لیے ایک معاہدہ طے کیا گیا ۔جو 1975میں نافذ ہوا ۔ اور اب دنیا بھر میں 2 فروری کو آب گاہوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ پاکستان نے 1976میں اس کنونشن میں شمولیت کی اور دنیا بھر میں آب گاہوں کے تحفظ کے لیے بنے اس کنونشن کا رکن بنا ۔رامسر کنونشن نے دنیا کی آب گاہوں کی فہرست تیار کی ہے ۔اسے آب گاہوں کا عالمی ادارہ بھی کہا جا سکتا ہے۔را مسر کنونشن ایک معاہدہ ہے جس کا رکن بننے کے لیے تین وعدے کرنے ہوتے ہیں ۔اول ،عالمی اہمیت کی حامل آب گاہوں کو رام سر کنونشن میں شامل کروانا۔
دوم یہ کہ اس ملک میں پائی جانے والی تمام آب گاہوں کے درست استعمال،اور ان کو مفید بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا سوم آبی انواع اور پانی کے مشترکہ نظاموں کے لیے تعاون کرنا شامل ہیں۔آب گاہوں کے بے شمار فوائد ہیں ۔مثلاََآب گاہوں میں کثیر تعدا میں پودوں کی اقسام ،پرندوں کی سینکڑوں اقسام ،مچھلیوں کی درجنوں اقسام ،پرورش پاتی ہیں ۔آب گاہیں کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔آب گاہوں سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے ۔آب گاہیں انسانوں کے پینے کے لیے پانی مہیا کرتی ہیں ۔ہوا کے دبائو کو کنٹرول کرتی ہیں سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے بچائو کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔
موسم کی تبدیلیوں کو اعتدال میں رکھنے کے کام آتی ہیں ۔اور سب سے بڑھ کر زیر زمیں پانی کی سطح کو برقرار رکھتی ہیں ۔پاکستان کی آب گاہیں اللہ تعالی کی طرف سے پاکستان کو ایک عظیم تحفہ ہیں ۔پاکستان میں 225 قابل ذکر آب گاہیں موجود ہیں ۔قدرتی اور مصنوعی ان میں سے 112 بڑی آب گاہیں ہیں آزاد کشمیر میں 10۔بلوچستان میں 22 ۔خیبر پختونخوا میں 20 ۔شمالی علاقہ جات 12 ۔پنجاب میں 17 ۔سندھ میں30 ۔وفاق میں ایک آب گاہ ہے۔
پاکستان کے کل رقبے کے ایک اندازے کے مطابق 10 فیصد سے زائد رقبہ پر آب گاہیں ہیں پاکستان کی 19 آب گاہوں کو رامسر سائٹ کا درجہ حاصل ہے ۔جن میں سے صوبہ سندھ میں 9 آب گاہیں ،کینجھل جھیل ۔دیہہ اکڑو ۔ڈرگ جھیل ۔ہالیجی جھیل ۔انڈس ڈیلٹا ۔انڈس ڈولفن ریزور۔جبھو لگون ۔نرڑی لگون ۔رن آف کچھ ۔صوبہ پنجاب کی 3 آب گاہوں میں ۔تونسہ بیراج ،اچالی کمپلیکس ۔چشمہ بیراج ۔اسی طرح بلوچستان کی 5 آب گاہوں ہیں جن کے نام ،استولا آئی لینڈ ۔جیوانی کوسٹل ۔حب ڈیم ۔میانی ھور۔اومارہ ٹرٹل بیچ۔ خیبر پختونخوا میں صر ف 2 آب گاہیں رامسر سائٹ میں شامل ہیں جن کے نام ٹاڈا ڈیم اور تھانے دار والاپائی ۔ خیال رہے یہ صرف ان آب گاہوں کے نام ہیں، جن کو رامسر سائٹ میں درج کر لیا گیا ہے۔
پاکستان میںان آب گاہوں کے اطراف میں 1 کروڑ 40 لاکھ افراد بستے ہیں ۔اپنی آب گاہوں کو تحفظ دے کر ہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں ۔لاکھوں افراد کو روزگار دے سکتے ہیں ۔ زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پانی کے وسائل تیزی سے ختم ہو رہے۔ 2040 تک 40 فیصد ختم ہو جائیں گے ۔یہ بات تو ہم نے کئی بار سنی ہے کہ آئندہ جنگ پانی پر ہو گی۔پاکستان میں آب گاہوں کی بقا کو شدید خطرات ہیں کیونکہ ان کی صفائی کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔
ماحولیاتی قانون 1997کے تحت صنعتی ادارے اس کے پابند ہیں کہ وہ کیمیائی مادوں کی صفائی کر کے پانی کا اخراج کریں لیکن اس قانون پر عمل نہیں ہو رہا ،جس وجہ سے آب گاہیں آلودگی کا شکار ہو رہی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر سختی سے عمل ہو ۔تاکہ آب گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
تحریر : اختر سردار چودھری