** تحریر سبطین عباس ساقی قارئین کرام!
اہل اقتدار ہمیں ظالم ہی نظر آتے ہیں خواہ وہ پی پی حکومت ہو ن لیگی یا تحریک انصاف کی۔عوام کو ہمیشہ نجانے کیوں اپوزیشن ہی بہتر محسوس ہوئی۔لیکن جب اس نے اقتدار میں ٹھوکر ماری تو پھر مایوسی کے سوا کچھ نہ رہا۔2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے میدان مارا اور میاں محمد نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس کے بعد کپتان نے دھاندلی کا رونا رویا اور 2014 میں دھرنے کا اعلان کردیا۔اگست 2014 میں اسلام آباد ڈی چوک پر پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں نے دھرنا دیا۔یہ دھرنا 126 دن تک جاری رہا اور اس میں بیشتر ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں سرکاری ٹی وی چینل پاکستان ٹیلی وژن نیوز پر حملہ بھی قابل ذکر ہے۔جیو نیوز کے دفتر پر پروگرام کیپٹل ٹاک کی جاری نشریات کے دوران پتھراو کیا گیا۔یہ واقعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ سیاسی جماعتیں میڈیا کی آزادی پر کیسا کردار ادا کرتی ہیں اور خصوصا بالخصوص وہ جماعت کہ جو دھاندلی اور ناانصافی کے لیے دھرنا دینے کے لیے تشریف لائی ہو۔سول نافرمانی کی تحریک کا بھی اعلان کیا گیا اور میرے کپتان نے خود کنٹینر پر اپنا بجلی کا بل اپنے دست مبارک سے کرایا۔اور عوام کو بھی سول نافرمانی کا سبق دیا گیا۔پارلیمنٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ تک کیا گیا۔ عوام کپتان کے دھرنے پر ایک امید لگائے ہوئے تھی کہ کپتان اگر حکومت میں آیا تو سب کچھ بدل کر رکھ دے گا۔پھر یوں ہوا کہ پانامہ لیکس نے دنیا بھر کے وزراء اور امراء کو ہلا کر رکھ دیا۔وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی پانامہ لیکن کی لسٹ میں شامل تھا۔جس پر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔پاکستان تحریک انصاف اور اتحادیوں نے یوم تشکر منایا۔میرے کپتان نے پورے پاکستان میں جلسے شروع کیے اور تحریک انصاف کو بے حد پذیرائی ملی۔عوام کو کپتان ایک مسیحا نظر آنے گا۔میرا کپتان تبدیلی لے کر آنے والا تھا۔ تبدیلی آنے والی تھی اور تبدیلی کے ساتھ ساتھ ایک کروڑ نوکری،50 لاکھ گھر،چھ دن میں چھٹا صوبہ سرائیکستان،ٹیکسوں میں کمی،ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی آمد سمیت بیش بہا دعوے بھی موجود تھے۔پاکستان تحریک انصاف کی پذیرائی دیکھ کر کچھ کرپٹ سیاست دان پی ٹی آئی میں شامل ہو کر باضمیر اور عوامی خدمت گار بن گئے۔میرے کپتان میرٹ پر یقین رکھتے تھے۔لیکن ٹکٹوں کی ادائیگی پر کتنا میرٹ دیکھا گیا۔عوام سمجھی کہ میرے کپتان کے پاس کوئی گیڈر سنگھی ہے کہ پلک جھپکنے پر ہی تبدیلی آ جائے گی۔ 2018 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔کپتان عمران خان 22ویں وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوئے۔عوام نے بھی خدا کا شکر ادا کیا۔اب اگر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔وہی پاکستان ہے کہ جس نے باہر سے قرضے نہیں لینا تھے وہ آئی ایم ایف ہی سے قرضہ لے رہے ہیں۔1 کروڑ نوکری کا تو بلکل اب تک تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔بے روزگاری اور غربت عروج پر ہے۔مہنگائی بے لگام ہوچکی ہے۔ پٹرول رواں ماہ ایک نہیں دو نہیں پورے 25 پیسے کم ہوا ہے یعنی چار لیٹر پر 1 روپے کی بچت ہوگی۔ میرے کپتان فقط اتنی ہی التجا ہے کہ بے شک جیسی عوام ہوتی ہے حکمران بھی ویسے ہی پیدا ہوتے ہیں۔یہ عوام آپ سے تبدیلی کی امید لگائے بیٹھی ہے۔بے شک کرکٹ،اپوزیشن اور حکومت میں بہت فرق ہے مگر اپنے وعدوں پر بھی کچھ غور کرلیں۔عوام آپ کو مسیحا مانتی ہے۔ہر جگہ ہرمحکمے اور شعبے میں اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ نالائق بھی موجود ہوتے ہیں۔میں نہیں جانتا مگر ہاں شاید آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی لوگ موجود ہونگے جنہیں آپ ماضی میں ڈاکو یا کرپٹ کہہ کر پکارتے تھے جی ہاں بالکل وہی جنہیں آپ اپنا چوکیدار بھی رکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ میرے کپتان خدا کے لیے عوام آپ کو کرکٹ میں ہیرو مانتی ہے آپ نے پاکستان کی خاطر کرکٹ کھیلی اور 1992 کے ورلڈ کپ میں پاکستان چیمپین بنا۔لیکن سیاست تھوڑی مختلف ہی ہے اور اپوزیشن بے شک اپوزیشن میں آپ نے اپنا لوہا منوایا اور اب بات ہے حکومت کی۔خدارا عوام کو مایوس نہ کرنا۔عوام یہ کہنے پر نہ مجبور ہوجائے کہ کیا ہوا تیرا وعدہ۔۔۔۔۔۔۔۔