سرگودھا: نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں سرگودھا کے حلقے این اے 68 کا نمبر تبدیل کرتے ہوئے این اے 92 کردیا گیا ہے۔
2002 کے عام انتخابات سے قبل یہ حلقہ این اے 50 کہلاتا تھا جسے مشرف دور میں ہونے والی حلقہ بندیوں کے دوران دو حلقوں این اے 67 اور 68 میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ یہ وہ حلقہ ہے جہاں سے 2013 کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف خود الیکشن لڑتے ہوئے کامیاب ہوئے تھے تاہم انھوں نے بطور وزیر اعظم حلف اُٹھانے سے قبل ہی اس نشست کو چھوڑ دیا تھا جس کے بعد یہاں ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ حلقے میں واقع ایک پولہ نامی گاؤں میں مبینہ طور پر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد کاسٹ ہونے والے ووٹوں سے کم ہونے کے باعث ایک تنازع کھڑا ہو گیا تھا جس کے نیتجے میں تحریکِ انصاف نے رٹ پٹشن بھی دائر کر دی تھی۔ تاہم نواز شریف کی طرف سے بطور وزیرِ اعظم حلف اُٹھانے سے پہلے ہی اس نشست کو چھوڑ دیا گیا جس کے بعد پی ٹی آئی نے اس کیس میں دلچسپی نہ لی۔یہاں 2013 میں ہی دوبارہ ضمنی الیکشن ہوا تو جیت نون لیگ کے سردار محمد شفقت حیات بلوچ کے حصے میں آئی۔
لگ بھگ 68 ہزار ووٹ لینے والے سردار شفقت نے آزاد اُمیدوار جاوید حُسین شاہ کو تقریباً 16ہزار ووٹوں کے واضح فرق سے شکست دی تھی۔ان انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے اُمیدوار ملک نذیر احمد نے بھی 40 ہزار سے زائد ووٹ لیتے ہوئے سب کو حیران کر دیا تھا۔اس سے قبل 2008 کے عام انتخابات میں بھی اس حلقے سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر سید جاوید حسین شاہ کو کامیابی ملی تھی تاہم 2010ء میں انہیں الیکشن ٹربیونل کی جانب سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔جب اس نشست پر ضمنی الیکشن ہوا تو مسلم لیگ نون نے اپنا ٹکٹ سردار شفقت حیات کو دیا جو بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائے۔دریائے جہلم کے کنارے پر واقع اس حلقے کی کل آبادی سات لاکھ کے قریب ہے۔ یوں یہاں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد چار لاکھ کے آس پاس ہے۔ماضی میں اس حلقے سے دائیں بازو کے سیاسی نظریات رکھنے والے زیادہ تر وہ سیاستدان کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں جنہیں پیر آف گولڑہ شریف میکن، بلوچ، قریشی، سید، کھوکھر، سیال، کلیار، لاہڑی، آرائیں اور راجپوت اس حلقے کی بڑی برادریاں ہیں تاہم ان برادریوں سے بڑھ کر یہاں مذہبی گدی سیال شریف کے ماننے والے اُمیدواروں کی ہار جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پیر آف سیال شریف حضرت خواجہ محمد حمید الدین سیالوی ناصرف سرگودھا بلکہ خوشاب، جھنگ اور چنیوٹ میں بھی اچھا خاصا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔2017ء کے آخر میں سر اُٹھانے والے ختم نبوت کے معاملے پر اگرچہ حمید الدین سیالوی کے ن لیگ کے ساتھ اختلافات پیدا ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک اُن کے سگے بھتیجے پیر غلام نظام الدین سیالوی این اے 92 کے ذیلی صوبائی حلقے میں بدستور ایم پی اے ہیں اور نون لیگ کے ساتھ ہونے کا دعوٰی بھی کرتے ہیں۔دوسری جانب ختم نبوت کے معاملے کے بعد سے اب تک حمید الدین سیالوی کی طرف سے نون لیگ کے حق میں کسی قسم کا بیان سامنے نہیں آیا۔ دوسری جانب اس ختم نبوت کے معاملے میں سیال شریف کا ساتھ دینے والے اکثر ممبران اسمبلی نے نون لیگ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔آئندہ الیکشن میں پیر حمیدالدین اگر یہاں نون لیگی اُمیدوار شفقت بلوچ کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ان کے لیے جیتنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔حلقے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لیے ظفر قریشی اور نور حیات کلیار کے درمیان مقابلہ ہے تاہم یہاں ایم ایم اے کی طرف سے تاحال کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا۔پی پی پی کی طرف سے راؤ جمشید ایڈووکیٹ الیکشن لڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں تاہم یہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کے اُمیدواروں کے مقابلے میں کافی کمزور اُمیدوار ہیں۔مقامی لوگوں کے مطابق اگر پیر حمیدالدین پی ٹی آئی کے امیدوار کو سپورٹ کریں تو نون لیگی اُمیدوار کے لیے مقابلہ کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔دوسری جانب حلقے کے قریشی خاندان، کھوکھر اور سید برادریوں کے ساتھ ساتھ دیگر کئی بڑے سیاسی خاندان بھی پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ن لیگ کی طرف سے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں یہاں کوئی خاطر خواہ ترقیاتی کام نہیں کروائے گئے تاہم خوشاب اور سرگودھا کو ملانے کے لیے تین ارب 70 کروڑ روپے کی لاگت سے دریائے جہلم لنگر والاپتن کی تعمیر بلاشُبہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جسے آئندہ الیکشن میں کیش کیا جس سکتا ہے۔