پانچ روز پہلے موسلا دھار بارش کے دوران ممبئی کے دو سرکلر ریلوے اسٹیشنوں (الفانسٹن اور پاریل) کو جوڑنے والے پل پر مسافروں کی بے پناہ بھیڑ میں ٹرین پکڑنے کی جلد بازی میں بھگدڑ مچ گئی۔22 افراد ہلاک اور 30 شدید زخمی ہو گئے۔پھر سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہو گئی جس میں پل پر زخمیوں اور لاشوں کے درمیان پڑی آخری سانسیں لیتی ایک عورت پر ایک شخص جنسی حملہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔اور پھر اس عورت کا ہاتھ اور گردن ڈھلک گئے اور وہ شخص آگے بڑھ گیا۔عینی شاہدین کہتے ہیں کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو پل پر پڑے جاں بلب عورتوں اور مردوں کے بٹوے اور پرس اٹھاتے یا زیورات اتارنے کی کوشش کرتے اور رفو چکر ہوتے دیکھا۔
8اکتوبر 2005 کو شمالی پاکستان اور کشمیر میں خوفناک زلزلہ آیا۔لگ بھگ 90ہزار لوگ لقمہِ اجل بن گئے۔ بالا کوٹ اور مظفر آباد تقریباً تباہ ہو گئے۔ پاکستان کو پہلے سکتہ ہوا اور پھر لوگ مصیبت زدگان کی مدد کے لیے ہر شہر میں نکل آئے۔انھیں باہر نکالنے کے لیے میڈیا نے بھی مثبت کردار ادا کیا۔ مگر یہ عظیم انسانی المیہ بھی کچھ لوگوں کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ان کے اندر سے فرشتے کی جگہ شیطان نکل آیا۔
معروف گائینا کولوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید ان رضاکاروں میں شامل تھے جو سب سے پہلے طبی امداد متاثرہ علاقوں میں لے کے پہنچے۔وہ لکھتے ہیں کہ زلزلے کے دوسرے دن سے ہی ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلیکس میں لائے جانے والے زخمیوں کے لواحقین نے بتانا شروع کر دیا کہ فلاں فلاں علاقے میں کچھ منظم گروہ تباہ شدہ گھروں سے اشیا نکال نکال کر لے جا رہے ہیں۔چند مقامات سے ایسی خبر بھی آئی کہ مردہ عورتوں کی طلائی چوڑیاں ، انگوٹھیاں اور بالیاں تک نوچ لی گئیں۔
زلزلے کے دوسرے روز شام تک گڑھی حبیب اللہ سے مظفر آباد تک کا راستہ کھلا تو مظفر آباد میں لوٹ مار اور نوعمر لاوارث بچے بچیوں کے اغوا کی اطلاعات آنے لگیں۔مگر حکومت نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے حکم جاری کیا کہ زلزلہ زدہ علاقوں سے کسی لاوارث بچے یا بچی کو کسی اور علاقے میں منتقلی کی اجازت نہیں۔ان بچوں کو صرف فوجی اور سرکاری کیمپوں کے حکام کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔کچھ روز بعد فوج نے متاثرہ علاقوں میں چھاپے مارنے شروع کیے اور متمول لوگوں کے گھروں سے امدادی اشیا کی برآمدگی شروع ہو گئی۔حالات کو مکمل قابو میں لانے میں دو ہفتے لگے۔
2010 کے سیلاب کے سبب نوشہرہ سے بدین تک بیس فیصدپاکستان زیرِ آب آگیا۔میں رپورٹنگ اسائنمنٹ پر تھا۔مظفر گڑھ کے ایک زیرِ آب نواحی علاقے میں میں نے دیکھا کہ امدادی کشتیوں سے اترنے والے جانوروں کو خریدنے کے لیے متعدد علاقوں سے آئے ہوئے بیوپاری بے تاب ہیں اور پچاس ہزار کی بھینس پانچ ہزار میں ، پانچ ہزار کی بکری پانچ سو اور سو روپے کی مرغی دس روپے میں خریدنے پر بضد ہیں۔ان جانوروں کے اکثر مالکان کی جیب میں نہ تو نقد پیسہ تھا کہ اپنی دیکھ بھال کر سکیں یا جانوروں کے لیے خشک چارہ ہی خرید سکیں۔چنانچہ بہت سوں نے مجبوری کے سودے کر لیے۔اس خوامخواہ کی بحث سے قطع نظر کہ مصیبت زدہ ایک ہی وطن، ایک ہی عقیدے اور ایک ہی زبان والے تھے۔کیا یہ بیوپار تھا یا لوٹ مار یا پھر ننگا ڈاکہ ؟ یہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔
دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بے بسی کو لوٹنے کا مرحلہ ہو تو مہذب و غیر مہذب ، تیسری دنیا اور پہلی دنیا کا فرق سیکنڈوں میں برابر ہو جاتا ہے۔ انسان کہیں کا بھی ہو اندر نفس نامی ایک خونخوار جانور بھی تو بندھا ہوا ہے۔کچھ لوگ اسے آختہ کر دیتے ہیں ، جو اسے ذبح کرنے کے قابل ہیں وہ بڑے درجات والے ہیں مگر ہم میں سے اکثر اس جانور کو پالتے پوستے ہیں اور پہلا چانس ملتے ہی شکار پر چھوڑ دیتے ہیں۔
امریکا نہ تو صومالیہ کی طرح بھوکا ہے نہ افغانستان کی طرح بدامنی کا گہوارہ اور نہ ہی کانگو کی طرح خانہ جنگی زدہ۔پھر بھی 13 جولائی 1977 کو نیویارک میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہو گیا۔25 گھنٹے بعد روشنی بحال ہوئی تب تک ایک ہزار املاک اور گاڑیوں کو آگ لگ چکی تھی اور کم از کم سولہ سو اسٹور لوٹے جا چکے تھے۔تین ہزار کے لگ بھگ گرفتاریاں عمل میں آئیں۔مگر ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔
اس موقع پر مجھے یاد ہے کہ اردو اخبارات میں کئی روز تک مضامین اور کالم چھپتے رہے جس میں اقبال کے اشعار کی مدد سے چمکتی دمکتی مغربی تہذیب کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کیا جاتا رہا۔اس وقت کسی لکھاری نے سوچا تک نہیں ایک انگلی دوسرے کی طرف اٹھتی ہے تو اسی ہاتھ کی تین انگلیاں اپنی جانب بھی اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔
ہماری یادداشت میں47ء کے فسادات کے حساب سے یہ تو محفوظ ہے کہ لاکھوں لوگ مرے ، ہزاروں املاک اور عصمتیں لٹیں ، لڑکیاں اغوا ہوئیں۔اور اس کھیل میں ہندو مسلم سکھ سب شامل تھے۔مگر اب تک کسی نے اس تناظر میں مقامی سطح پر یہ نفسیاتی تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ایسی کسی بھی آزمائش کے دوران ذرا دیر میں پوری ہزار برس کی مروت اور تہذ یبی روایت کیسے لمحے بھر میں کھرچی جاتی ہے اور اندر سے ایک درندہ کیسے برآمد ہو جاتا ہے اور پھر کیسے واپس اندر چھپ جاتا ہے اور اجتماعی یادداشت سے بھی محو ہو کر انکار کے جنگلے میں لیٹ جاتا ہے۔وہ گھر ، محلے ، اسکول اور عبادت گاہ میں دی جانے والی تعلیم کیسے پل بھر میں ہوا ہوجاتی ہے جس کا مقصد نسل در نسل ایک ایسی نسل کی تیاری بتایا جاتا ہے جو مصیبت کے وقت دوسرے کے کام آئے اور خود کو بھول جائے۔
اور خود تہذیب کس چڑیا کا نام ہے ؟ چھبیس دسمبر دو ہزار چار کو انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا کے نیچے شدید زلزلے کے سبب سونامی کی لہریں اٹھیں اور افریقہ کے مشرقی ساحل تک بتیس ساحلی ریاستیں اس کی زد میں آئیں۔اس راستے میں بس ایک علاقہ ایسا ہے جہاں کسی نے کسی کو نہیں لوٹا۔اور وہ ہے جزیرہ انڈیمان ( کالا پانی )۔کہنے کو انڈیمان کے نیم دھڑنگ قبائلی ہماری نام نہاد تہذیبی تشریح پر آج بھی پورے نہیں اترتے۔
اور اگر مہذب دنیا میں مصیبت کے وقت مہذب رویے کی مثال دیکھنی ہو تو آج کا جاپان ہے۔وہاں دو ہزار گیارہ میں ایسا سونامی آیا کہ مشرقی ساحل کے کئی قصبے تقریباً صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ایک جوہری پاور پلانٹ کو شدید نقصان پہنچنے کے سبب لاکھوں لوگوں کو ہنگامی طور پر حفاظتی مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔سامان اور گاڑیوں سمیت بیشتر اسباب پیچھے گھروں میں رہ گیا۔ان ہزاروں خالی گھروں میں سے کم ازکم کسی ایک گھر یا گاڑی کے لٹنے کی خبر تو آنی چاہیے تھی ؟ مگر عالمی میڈیا آج تک مایوس ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر بڑی تباہی میں لوٹ مار کی ایک خبر تک نہ ہاتھ آ سکی۔
دارالحکومت ٹوکیو سونامی سے متاثر نہیں ہوا تھا۔مگر افواہوں کے سبب ہر شخص پریشان تھا۔چنانچہ ایک ہی دن میں تمام سپر اسٹورز اشیائے خور و نوش سے خالی ہوگئے۔ گزشتہ روز شام کو حکومت نے اعلان کیا کہ ٹوکیو اور نواحی علاقوں کو کوئی خطرہ نہیں۔لہذا شہریوں سے درخواست ہے کہ زائد از ضرورت خریدا ہوا سامان اسٹورز کو واپس کر کے ری فنڈ حاصل کر لیں تاکہ جو لوگ محروم ہیں ان تک یہ اشیا پہنچ سکیں۔چنانچہ دوبارہ لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ گزشتہ روز تمام سپر اسٹورز کے خالی شیلف پھر سے بھر چکے تھے۔
چلیے کم ازکم یہی کوئی تحقیق کر لے کہ انڈیمان کے ننگ دھڑنگ قبائلوں اور مہذب جاپانیوں میں ایسے کون سے جینز مشترک ہیں جو بوقتِ مصیبت بھی انسانی جبلت کے سیاہ پہلوؤں کو باہر آنے سے روکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان جینز کو موڈیفائی کر کے دیگر ہم عصر اقوام اور نسلوں کے لیے کوئی اینٹی لالچ اور لوٹ مار کی جبلت سے مکت کرنے والی ویکسین تیار ہو سکے۔