چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے گلستان جوہر میں زمینوں پر قبضے کے کیس کی سماعت میں ریمارکس دئیے کہ بتایا جائے کراچی کو کس نے عمارتوں کا جنگل بنایا ۔کے ڈی اے ، کے ایم سی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پیسہ بنانے کی مشین ہیں، خطرناک قبضہ مافیا کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سجاد علی شاہ کی سربراہی میںدورکنی بینچ نےگلستان جوہر اسکیم 36میں زمینوں پر قبضے اور چائنا کٹنگ سے متعلق توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے ڈی آئی جی ایسٹ کو حکم دیا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹرکے ڈی اے جمیل بلوچ کو مکمل سیکورٹی اور غیر قانونی قابضین کے خلاف مقدمات درج کرانے والے درخواست گزاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن غلام قادر تھیبو ایک ہفتے میں اسکیم چھتیس کے ریکارڈ سے متعلق چھان بین کرکے رپورٹ پیش کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کہتے ہیں شہر عمارتوں کا جنگل بن گیا،بتایا جائے کس نے اس شہر کو عمارتوں کا جنگل بنایا۔مسئلہ یہ ہے کہ کے ڈی اے کےخود ہاتھ نہیں۔۔کے ڈی اے ،کے ایم سی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پیسہ بنانے کی مشین ہیں۔خطرناک قبضہ مافیاکےخلاف کارروائی کرنے کو کوئی تیار نہیں۔سرکاری زمینوں پر بڑی بڑی عمارتیں بن گئیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔گریڈ اٹھارہ کا جو افسر کارروائی کرنے کو تیار ہے اسے ہراساں کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ افسر نے بیان دے دیا کچھ ہوا تو چار بندے ذمے دار ہوںگے ، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والا کبھی تسلیم نہیں کرتا۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلیں لے جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں لینڈ گریبرز سے مذاکرات کرو۔ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن نے جواب دیا کہ ہم قانون کے مطابق مجسٹریٹ کی موجودگی میں کارروائی کرتے ہیں۔فائل کی کاپی کرکے اور تصدیق کے بعد واپس دی دیتے ہیں۔ عدالت نے سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی۔