پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ہونے والے واقعات میں ریاستی جانبداری و پشت پناہی کا جو مظاہرہ آج تک چھپ چھپا کے کیا جارہا تھا وہ اب نئے سرے سے منظرِ عام پر آ گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے طلباء تصادم میں جمعیتِ طلباء اسلامی کو جس طرح معصوم ثابت کرنے کی کوشش ریاستی سرپرستی میں میڈیا کے تعاون سے کی جارہی ہے دراصل یہ اپنے جرائم کو چھپانے اور مظلوم طبقات کو کچلنے کی گھنائونی سازش معلوم ہوتی ہے۔ جمعیتِ طلباء اسلامی جو کہ دائیں بازو کی تنظیم ہے اس طرح کے جرائم میں کئی دہائیوں سے براہِ راست ملوث رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سمیت جہاں کہیں اس تنظیم نے پنجے گاڑے وہاں عام طلباء اور بائیں بازو کی تنظیموں اور خیالات کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش اس تنظیم کی جانب سے کی گئی۔ طلباء سیاست کی اصل اساس کو بگاڑنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے تعلیمی اداروں میں کلاشنکوف کلچر سے لے کر منشیات عام کرنے اورطلباء کو ہراساں کرنے کی حد تک کے متعدد واقعات میں یہ تنظیم ملوث رہی ہے۔
حالیہ واقعے سے ایک روز قبل جمعیتِ طلباء اسلامی نے اسلامیہ کالج سول لائینز میں پشتون طلباء کو نہ صرف شدید تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ انھیں یرغمال بھی بنایا۔ انتظامیہ کی بے حسی اور جانبداری کی وجہ سے انکے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تنظیم نے رات کو پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر 4 میں جا کر پشتون طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے جو کہ جناح ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ رجعت پسند تنظیم نے کلچر فیسٹیول میں پشتون اور بلوچ طلباء پر تشدد کرتے ہوئے انکے کلچرل سٹالز کوتہس نہس کر دیا۔ اس کے بعد الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کو آگ لگا دی گئی۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق یہ حملہ تین سے چار گھنٹے تک جاری رہا۔
اس واقعے کے بعد یونیورسٹی میں تںظیموں نے جمعیتِ طلباء اسلامی کے خلاف احتجاج کی کال دی۔ یہ کہا گیا تھا کہ یہ احتجاج جمعیتِ طلباء اسلامی کی دہشت گردی کے خلاف کیا جانا تھا۔ احتجاج میں گرفتار ہونیوالے پرامن بلوچ، پشتون اور سرائیکی طلباء کی رہائی اور جمعیت کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 23 جنوری 2018ء کو یہ احتجاج استنبول چوک مال روڈ پر ہونا تھا جسے پولیس نے کچلنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد یہ طلباء پریس کلب لاہور کے سامنے احتجاج کرنے کے لیے اکھٹے ہوئے۔ پولیس نے بھاری نفری کے ساتھ ان طلباء کو گرفتار کر لیا۔ تقریباً دو سو کے قریب طلباء کو حراست میں لیا گیا جبکہ کچھ ذرائع کے مطاق یہ تعداد چار سو کے لگ بھگ ہے۔
متعدد بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں مختلف طلباء تنظیموں نے ریاست کی اس گھنائونی واردات کی شدید الفاظ میں نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ مطالبہ کیا ہے کہ جمعیت طلباء اسلامی کی ریاستی پشت پناہی کو ختم کیا جائے اور نہ صرف اس پر پابندی عائد کی جائے بلکہ اسے دہشتگرد تنظیم قرار دیا جائے۔ اس طرح کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ ماضی میں مشال خان واقعے سمیت کئی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں ریاستی پشت پناہی میں مذہبی شدت پسند طلباء تنظیموں کا استعمال ہوا۔ اس سلسلے کے تانے بانے فوجی آمر ضیاء الحق کے دور سے جا ملتے ہیں۔ ضیاء الحق نے بائیں بازو کی سیاست کو کچلنے کےلیے طلباء سیاست پر نہ صرف پابندی عائد کی بلکہ ڈالر جہاد کا آغاز کرتے ہوئے اس سماج کی شریانوں میں رجعیت کا زہر اتارنے میں سازگار ماحول پیدا کیا۔
ریاست کی دوغلی پالیسی اس بات سے عیاں ہے کہ ترقی پسند بائیں بازو کے تمام طلباء تنظیموں پر مختلف طریقوں سے وار کرتے ہوئے طلباء یونینز کو بحال ہونے سے روکا جا رہا ہے جبکہ رجعت پسند دہشتگردوں کو تعلیمی میدان میں لاکر کھڑا کیا جارہا ہے۔ حالیہ واقعے کے علاوہ قائدِاعظم یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی میں طلباء تحریکوں کو کچلنے کی ریاستی کوشش اور ریاست کی پشت پناہی میں رجعت پسند دہشتگرد جمیعتِ طلباءاسلامی کا دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں کنونش اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ریاست ایک سوچے سمجھے سازش کے تحت یہ سارا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس کی وجہ ہمیں یہ سمجھ آتی ہے ریاست کی بالادستی میں پلنے والے تعلیمی اداروں پر قابض گروہ خوفزدہ ہے۔ شاید انھیں یہ لگ رہا ہے کہ اسطرح کی طلباء تحریکیں انکے خونی کھیل اور معاشی استحصال کی پالیسی کو ختم کرکے ان سے اپنے لہو کا حساب مانگیں گیں۔
تعلیمی اداروں کو جیل خانہ بنا دیا گیا ہے۔ خار دار تاروں سے لیکر واک ان گیٹس پر بھاری سکیورٹی نافذ کر دی گئی ہے اس سے بڑھ کر سیکیورٹی کے نام پر طلباء کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ یاد رہے ماضی قریب میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں طالبات پر جینز پہننے پر پابندی نافذ کرنے کی کوشش کی گی۔ طلباء کے حرکات و سکنات پر نہ صرف نظر ڈالی جا رہی ہے بلکہ انھیں اس خوف سے یکجا ہونے سے روکا جا رہا ہے کہ کہیں مشال خان جیسے کسی اور واقعے اور بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات پر ملک گیر طلباء تحریک ریاست کی بالادستی کو ناکام بنا دے۔ اس سے ایک بات واضح ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاست ایک طلباء تحریک کے نہ ہونے کا فائدہ لے رہی ہے۔
طلباء تحریک کا نہ ہونا اور اسے پھوٹنے یا پنپنے سے روکنا ریاست کے بالادست طبقات کےلیے اہم ہے بصورت دیگر یہ طلباء کے ساتھ کھیلے جانے والی خون کی ہولی اور انکا معاشی قتل ان بالادست طبقات کے لیے ممکن نہ ہو گا اور نہ ہی ان طبقات کے مراعات و سرمایے کا تقدس قائم رہ سکے گا۔ 69-1968 کی انقلابی تحریک کا آغاز راولپنڈی کے پولی ٹیکنیکل کالج میں عبد لحمید نامی طالبعلم کے قتل سے شروع ہوا تھا، ریاست نے اس انقلابی تحریک کو ہر طرح سے روکنے کی کوشش کی تھی مگر ریاست اپنے مقاصد پورا کرنے میں ناکام رہی بلکہ پشاور سے لیکر چٹا گانگ تک سوشلسٹ انقلاب کے نعرے گونج رہے تھے۔ جب سے طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی عبدالحمید جیسے کئی طلباء کا قتل ہوا مگر ریاست کے جرائم پیشہ اور قاتل غنڈہ گرد ٹولے آزادی کے ساتھ دندناتے پھرے کیونکہ کوئی ملک گیر تحریک کا خوف ریاست کو نہ تھا۔ حالیہ واقعات میں ریاست کی خوفزدگی اس سلسلے کی کڑی ہے کہ کہیں کوئی ملک گیر تحریک نہ پھوٹے اور طلباء کے معاشی قتل کا حساب نہ مانگے۔ لیکن یہ امید ہے کہ اگر آج جمود کی کیفیت ہے تو کل بہت کچھ ہوگا، تخت اچھالے جائیں گے، تاج گرائے جائیں گے، ایوانوں میں خطروں کی گھنٹیاں بجنا شروع ہونگی۔ اسی ملک کے چوک و چوراہوں میں روزِ محشر بپا ہوگا اور ریاست کی بالادست طبقات اپنا حشر خود دیکھیں گے۔ اس جمود کی کیفیت میں طلباء یہی کہ سکتے ہی
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں،کس سے منصفی چاہیں