اسلام آباد: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی تیسری اہلیہ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں اور انہوں نے زندگی کا زیادہ وقت والد کے زیر سایہ گزارا ہے۔امریکی اخبار کے 2015 کے ایک مضمون میں شہزادہ محمد بن سلمان کی زندگی کے بارے میں تفصیلات دی گئی تھیں
جس کے مطابق سعودی ولی عہد کے پاس قانون کی ڈگری ہے جو انہوں نے ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ وہ اپنے والد کے لیے کئی طرح کے مشیروں کے کردار ادا کرچکے ہیں،انہیں واٹرا سپورٹس جیسے’’واٹر اسکینگ‘‘ پسند ہیں جبکہ آئی فونز اور ایپل کی دیگر ڈیوائسز کو استعمال کرتے ہیں، اسی طرح جاپان ان کا پسندیدہ ملک ہے جہاں وہ اپنے ہنی مون پر بھی گئے۔ نیویارک ٹائمز کو سعودی شاہی خاندان کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ محمد بن سلمان کو ہمیشہ اپنے عوامی کردار کے بارے میں فکر رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تمباکو نوشی اور رات گئے باہر گھومنے سے گریز کرتے ہیں تاہم انہیں مہنگی اشیا کی خریداری کرنا پسند ہے ۔ شاید ہی کوئی سعودی شہزادہ عالمی سطح پر اتنی تیزی سے ابھرا ہو جس طرح محمد بن سلمان کا عروج ہوا ہے۔ اور شاہ فیصل کے بعد شاید ہی سعودی خاندان کے کسی فرد کے متعلق دنیا میں اتنا تجسس پایا جاتا ہو جتنا ولی عہد محمد بن سلمان کے متعلق پایا جاتا ہے۔ ہر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ وہ اتنی تیزی سے قدامت پسند سعودی پالیسیوں میں تبدیلی کیوں لانا چاہتے ہیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق جب وہ سنہ 2013 میں جدہ میں محمد بن سلمان سے ملے تھے تو انھوں نے اپنا تعارف محض ایک ‘وکیل’ کے طور پر کروایا۔ لیکن آج وہ وکیل نہیں عرب دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے سب سے طاقتور شخصیت کے طور پر ابھر کے سامنے آ رہے ہیں اور سعودی فرمانروا بھی بظاہر اہم فیصلے ان کے صلاح مشورے سے ہی کرتے ہیں۔محمد بن سلمان اب حقیقی طور پر تخت سے ایک ہی قدم کی دوری پر ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان 31 اگست 1985 کو پیدا ہوئے تھے اور وہ اس وقت کے شہزادے اور موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کی تیسری اہلیہ فہدہ بن فلاح کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سے بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد شہزداہ محمد نے کئی سرکاری اداروں میں کام کیا۔ اُن کی ایک ہی بیوی ہیں جن سے ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔انھیں 2009 میں اپنے والد کا مشیرِ خصوصی مقرر کیا گیا جو اُس وقت ریاض کے گورنر تھے۔ شہزادہ محمد کے سیاسی سفر میں ایک اہم موڑ اپریل 2015 میں اُس وقت آیا جب شاہ سلمان نے اپنی جانشینی کی قطار میں نئی نسل کو شامل کیا۔
شاہ سلمان نے سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ہٹا کر اپنے بھتیجے محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کیا جب کہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد محمد بن سلمان کی تخت تک رسائی ممکن بنانے کے لیے بس محمد بن نائف کو ہٹنا تھا جو کہ کچھ عرصے بعد کر دیا گیا۔ولی عہد کے پاس نائب وزیرِ اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ بھی ہے۔ شہزادہ محمد 29 برس کی عمر میں دنیا کے سب سے نو عمر وزیر دفاع بنے تھے۔محمد بن سلمان کے وزارتِ دفاع کا قلمدان سنبھالتے ہی سعودی عرب نے اپنے جنوبی ہمسایہ ملک یمن میں عملی طور پر جنگی کارروائیاں شروع کر دیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت یمنی تنازع دراصل ایران اور سعودی عرب کے درمیان پراکسی وار ہے۔ یمن کی جنگ میں 2015 سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں بھوک کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں۔ لیکن ابھی بھی دونوں فریق جنگ روکنے کا نام نہیں لے رہے۔ جنگ کے علاوہ انھوں نے دوسرا دھماکہ مئی 2017 میں کیا جس میں درجنوں شہزادوں، امرا اور سابق وزرا کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا جوا تھا جس سے شاہی خاندان کے رشتوں میں دراڑ پڑ سکتی تھی لیکن ولی عہد محمد بن سلمان نہ صرف اس میں کامیاب رہے بلکہ اطلاعات کے مطابق انھوں نے گرفتار کیے گئے شہزادوں اور امرا سے پیسے بھی نکلوائے۔اب نوجوان سعودی ولی عہد کی پوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہو گئی ہے اور ان کے تقریباً سارے حریف راستے سے ہٹا دیے گئے ہیں۔ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ قدامت پسند ملک کے مذہبی علما کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں ہے۔ انھوں نے عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی، بغیر مرد کفیل کے کاروبار شروع کرنے کا موقع دیا، ان کے ہی دور میں ایک خاتون سعودی عرب کی سٹاک ایکسچینج کی سربراہ بنی۔ اسی طرح آماد خیالی کا سلسلہ جاری رہا اور اپریل 2018 میں 35 برس بعد سعودی عرب کے سنیما میں دوبارہ فلم دکھائی گئی، اور سعوی عرب میں پہلے اینٹرٹینمنٹ سٹی کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔