لاہور( ویب ڈیسک) میں کلثوم نواز کو آنٹی کہا کرتی تھی اور جب وہ میاں صاحب کی بات کرتی تھیں تو تمہارے انکل کہہ کر بات کرتی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز اہنے شوہر میاں نواز شریف سے بہت محبت کرتی تھیں اور میاں صاحب بھی کلثوم نواز سے بہت کرتے تھے کیوںکہ ایک دفعہ
معروف خاتون صحافی سیدہ عائشہ غفار لکھتی ہیں۔۔۔ بیگم کلثوم نواز مجھے انٹرویو دے رہی تھیں ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا اور مریم نواز کی بیٹٰی کرولنگ کرتی اندر آئی تو بیگم کلثوم نواز نے آواز لگا کر میاں صاحب زرا انہوں پھڑنا میں اینہوں انڑویو دے لاں۔ مریم مارکیٹ گئی ہے میاں صاحب اندر آتے ہی ہوئے ہچکچائے، تو بولیں آجاؤ میں میاں صاحب اپنی عائشہ اے خبریں والی آپکی بھتیجی۔ کلثوم نواز کو شاعری کا بھی حد شوق تھا یہی وجہ تھی کہ انہون نے اردو ادب میں ایم اے کیا تھا، ایک دفعہ ان کی ایم اے اردو کی ڈگری کا جعلی ہے کا ایشو چلا تھا تو یہ بولیں کہ لوگوں کا کیا دنیا کب چپ رہی ہے کہنے دے جو کہتی ہے۔ بیگم کلثوم نواز اپنی ازدواجی زندگی سے بہت مخلص تھیں اور کہتی تھیں کہ میاں صاحب نہ صرف محبت کرنے والے شوہر اور مشفق باپ ہیں۔ جب باہر کے ملک کا دورہ کرتے ہیں تو مجھے ضرور ساتھ لے کر جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں نے دنیا کی سیر اور جہاں جاتے ہیں میرے لیے ضرور کچھ لاتے ہیں۔ ایک دفعہ بیگم کلثوم نواز کے پاس ماڈل ٹاؤن پہنچی تھی تو ان دنوں انکے جوتےکی
خبر بڑی مشہور ہو رہی تھی کہ وہ لاکھ روہے کا ہے تو میں نے پہن کر پوچھا آنٹی یہ وہ لاکھ والا جوتا پہنا ہے تو بے ساختہ بولیں، کدھر سے یہ تو تمہارے انکل نے دبئی ائیر پورٹ سے 70 ہزار کا لے کر دیا تھا اس پر اس پر چھوٹا سا ڈائمنڈ لگا تھا۔ پھر اچانک بولتے بولتے رک گئیں اور میری طرف دیکھ کر بولیں ‘ اے ہن لکھ نہ دیویں خبریں والے تے معاف ہی نہں کردے’ زیادہ تر پنجابی بولتی تھیں۔پہلوانوں کے خاندان سے تعلق ہونے کے با وجود کم خوراک تھیں۔ بیگم صاحب کو پودوں اور درختوں سے بے حد لگاؤ تھا وہ عموماً جب میں آنے لگتی تو وہ اپنے گارڈن تک میرے ساتھ آتیں اور کہتی تھیں کہ مجھے پودوں کا بہت شوق ہے اور جب میں باہر سے آتی ہوں تو وہاں سے کوئی پودا ضرور لاتی ہوں اور یہ مختلف ممالک کے درخت اور پودے ہیں اور وہ پھر عموماً ان پر لگے پھل توڑ کر میرے بیگ میں ڈال دتیں اور کہتی کہ آفس جاکر کھانا اور پھر میں واپس آکر رپورٹنگ میں سب کو وزیر اعظم ہاؤس کا تبرک کھلاتی۔ ایک دفعہ پیاز بہت مہنگی ہوگئی تو ضیا شاہد صاحب نے کہا کہ مہنگائی کے حوالے سے جاکر
ذرا بیگم کلثوم نواز سے بات کرو وہ بھی خاتون اول کے ساتھ ساتھ ایک خاتون خانہ ہیں۔ میں نے کہا آنٹی پیاز اتنی مہنگی ہو گئی ہے لوگ ہانڈی میں کیا ڈالیں۔ ہائے میری سادگی دیکھ تو فوراً بولیں عائشہ پیاز مہنگی ہو گئی ہے تولوگ کڑھی بنا لیں۔ میں نے کہا آنٹی کڑھی میں بھی پیاز کے پکوڑے ڈلتے ہیں۔ خبر چھپی تو اگلی دفعہ میں گئی تو ناراض ہوئیں تم نے میری خبر لگادی میاں صاحب نے کہا کہ تو ایسے بیان بیان دے کر مینوں جلدی لواں دیں گی۔ خبریں دے سامنے سوچ کر بولیا کر۔ عموماً رائے ونڈ سے آئی ہوئی لسی ضرور پلاتی تھیں ایک دفعہ کھانے کے وقت بیگم صاحبہ نے کہا کہ عائشہ تم میرے ساتھ ہی میری پلیٹ میں کھانا کھالو میں نے کہا آنٹی رہنے دیں اگر میں نمک حلال ہو گئی تو آپ کی خبریں کیسے لگاؤں کی اس پر بیگم صاحبہ بہت ہنستیں اور بولیں بڑی شیطان ہے توں۔ جب نواز شریف نے 1997 میں بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا تو میں خبریں اخبار کی طرف سے گئی تو میں نے کہا آنٹی ایک بات پوچھوں پہلے تو میں اپوزیشن میں آپ کی بیٹی تھی کیا اب حکومت کی بیٹی بھی ہوں تو مسکراتے ہوئے بولیں کہ کیوں نہیں خبریں اخبار بھی تو غیر جانبدار لکھتا ہے حکومت ہو یا اپوزیشن۔ بہت سے واقعات تھے جو یاد آئے وہ لکھ دیئے۔کئی لوگ بہت دل عزیز ہوتے ہیں ان کا تعلق نہ کسی ذات نہ قبیلے نہ پارٹی سے ہوتا ہے لوگ ان سے والہانہ محبت کتے ہیں بیگم کلثوم نواز ہم میں نہیں لیکن ان کی یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی خداوند کریم ان کے درجات بلند کرے۔