’’میانمار (برما) کے ستمگر بُدھ سیاستدانوں، بُدھ مذہبی رہنماؤں اور برمی فوج کے مظالم سے تنگ آکر روہنگیا مسلمان بنگلادیش کے سرحدی علاقوں میں پہنچ رہے ہیں، انھیں دیکھ کر مَیں ابھی ابھی کاکسز بازار سے آیا ہُوں۔ کاکسز بازار دراصل بنگلادیش کے اُس سرحدی علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے جو نسبتاً میانمار کے نزدیک ہی پڑتا ہے۔ یہ بنگلادیش کا سب سے بڑا ساحل بھی ہے۔ سو کلومیٹر سے زائد طویل پٹّی پر پھیلا ہُوا۔
خوبصورت ساحل ہونے کے ناتے یہاں چند درمیانے درجے کے ہوٹل بھی بنا دیے گئے ہیں۔ یہاں ہر وقت بارش برستی رہتی ہے۔ خشک جگہوں کا ملنا خاصا دشوار ہے۔ روہنگیا مسلمان کاکسز بازار کے آس پاس پہنچ چکے ہیں،اُن کے لیے سر چھپانے کی جگہیں بنانا اور تلاش کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
بنگلہ دیش، پاکستان کی طرح، ویسے بھی بھاری آبادی سے اُبلا پڑ رہا ہے، اس لیے بھی روہنگیا مہاجرین کے لیے شیلٹر بنانا خاصا دشوار ثابت ہو رہا ہے؛چنانچہ ہم نے فوری طور پر کاکسز بازار میں پناہ لینے والے ان روہنگیا مسلمانوں میں پلاسٹک کی بڑی بڑی شیٹیں تقسیم کر دیں تاکہ بارش میں مسلسل بھیگنے سے محفوظ رہا جا سکے۔ ساتھ ہی موسم کی مناسبت سے بستر بھی فراہم کیے۔ ہماری ویلفئیر تنظیم کی سب سے پہلی یہ بھی کوششیں رہیں کہ مہاجر روہنگیا کو پکا پکایا کھانا عزت اور احترام سے فراہم کیا جاتا رہے۔ ان مہاجر روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔‘‘
یہ الفاظ معروف برطانوی مسلمان فلاحی تنظیم ’’ المصطفیٰ ویلفئیر ٹرسٹ ‘‘ کے سربراہ جناب عبدالرزاق ساجد کے ہیں۔ عبدالرزاق ساجد صاحب کے ساتھ معروف کشمیری نژاد برطانوی سیاستدان جناب لارڈ نذیر احمدبھی کاکسز بازار گئے تھے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ والوں نے یہاں تین چار دنوں میں ساٹھ ستّر ہزار روہنگیا مہاجرین میں ڈھائی ملین ٹکہ(بنگلادیشی کرنسی) کی امداد تقسیم کی ہے۔ یہ مدد خشک اور پکی پکائی خوراک کی شکل میں بھی ہے اور نقد بھی۔ دیگر فلاحی اداروں کو بھی فوری طور پر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘
برطانوی ایوانِ بالا کے رکن لارڈ نذیر احمد صاحب کا بنیادی تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ وہ ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کے چیئرمین کے ساتھ کاکسز بازار میں تھے تو فون پر میری اُن سے مختصر سی بات ہُوئی۔ لارڈ نذیر احمد صاحب نے روہنگیا مہاجرین کا جو آنکھوں دیکھا حال مجھے بتایا، سُن کر دل دہل گیا۔
انھوں نے کہا:’’ یہاں بنگلادیش میں برطانوی ہائی کمیشن کے سینئرسفارتکاروں نے مجھے روہنگیا مہاجرین کے بارے میں تازہ ترین بریفنگ بھی دی ہے اور ان مہاجرین کے لیے برطانوی امداد میں جو تازہ اضافہ کیا ہے، اس کے بارے میں بھی مجھے آگاہ کیا ہے۔ بنگلادیش میں آنے والے نئے چار لاکھ مہاجرین کے لیے برطانوی حکومت نے 25ملین پونڈ کی امداد کر دی ہے۔‘‘
لارڈ صاحب نے ایک امیر عرب ملک کا نام لیتے ہُوئے بڑے رنج اور تاسف کے ساتھ مجھے یہ بھی بتایا :’’اس عرب ملک نے امریکہ میں آنے والے حالیہ سمندری طوفان کے متاثرین کے لیے پچاس ملین ڈالر کا عطیہ تو دے دیا ہے لیکن ظلم کے مارے روہنگیا مسلمان مہاجرین کے لیے ایک ڈالر بھی نہیں دیا ہے۔ ممکن ہے مستقبل قریب میں اُن کی طرف سے کوئی امداد آبھی جائے لیکن ابھی تک تو کوئی نہیں آئی۔ اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
جناب لارڈ نذیر احمد کا فون خاموش ہُوا توعبدالرزاق ساجد صاحب نے میرے استفسار پر روہنگیا مسلمان مہاجرین کا چشم دیدہ احوال سناتے ہُوئے بتایا :’’اُن کی حالت انتہائی بُری ہے۔ ہم سے جتنا ہو سکتا ہے، کررہے ہیں۔ مَیں بھی روہنگیا والوں کے لیے مزید فنڈز کے حصول کے برطانیہ کے مختلف شہروں میں نکل گیا۔ لندن میں بھی ڈنر کی شکل میں اہلِ خیر سے مالی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اب لارڈ صاحب کے ساتھ پھر بنگلادیش جا رہا ہُوںتاکہ ان ستم زدگان کی مزید کچھ مد د کی جا سکے۔ کوشش ہے کہ کاکسز بازار سے برما بھی جاؤں تاکہ ریکھائن میں موجود روہنگیا کے بقیہ مسلمانوں سے مل سکوں۔ ہمیں امید دلائی گئی ہے کہ برمی حکومت ہمیں ریکھائن جانے کی کھلی اجازت عنائیت کر دے گی۔‘‘
بنگلادیش کی معاشی حالت، پاکستان کی طرح، خاصی پتلی ہے، اس لیے چار لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجروں کا بوجھ برداشت کرنا آسان نہیں ہے۔ اس بوجھ کو عالمی این جی اوز ہلکا کر سکتی ہیں۔ بنگلادیشی وزیر اعظم، حسینہ واجد، روہنگیا مہاجرین کی مقدور بھر جو بھی مدد کررہی ہیں، اس کی تحسین کی جانی چاہیے۔
عبدالرزاق ساجد بتا رہے تھے:’’کاکسز بازار میں سکھ تنظیمیں، جو بنیادی طور پر برطانوی ہیں، بھی روہنگیا مہاجر مسلمانوں کی مدد کر رہی ہیں۔ انھوں نے وہاں ’’گُرو کے لنگر‘‘ کھول دیے ہیں تاکہ مسلمان مہاجرین کو خوراک مہیا کی جا سکے۔کاکسز بازار آئے ایرانی نائب وزیر خارجہ مرتضیٰ سرمندی صاحب سے بھی میری ملاقات ہُوئی ۔ ایران بھی روہنگیا مہاجرین کی مدد رہا ہے۔ ایرانی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کی جو مدد کی ہے، بنگلادیشی وزیر صحت نے اس کی بہت تعریف بھی کی ہے۔ ‘‘
میرے استفسار پر کہ پاکستان کی کوئی تنظیم کاکسز بازار یا دوسرے بنگلادیشی علاقوں میں روہنگیا مہاجرین کی مدد کرتی نظر آئی ؟ عبدالرزاق ساجد نے بتایا:’’بہت سی پاکستانی فلاحی تنظیمیں وہاں جانا چاہتی ہیں تاکہ روہنگیا بھائیوں کی اعانت کی جا سکے لیکن بنگلادیشی حکومت دانستہ پاکستانیوں کو ویزے نہیں دے رہی۔
بنگلادیش کچھ تو پاکستان کی بعض جہادی تنظیموں سے خائف ہے اور دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلادیشی جماعتِ اسلامی کے( چار) لیڈروں کو (ناجائز) پھانسی دینے پر حکومتِ پاکستان نے جس لہجے میں احتجاج کیا تھا، حسینہ حکومت اس سے بھی ناراض ہے(10اکتوبر2017ء کو بنگلادیش نے پھر جماعتِ اسلامی کے آٹھ لیڈروں کو بِلا وجہ گرفتار کیا ہے) پاکستانیوں کو زیادہ ویزے دے کر حسینہ واجد بھارت کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتیں۔
اِن عوامل نے پاکستانی فلاحی تنظیموں کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں اور وہ فوری طور پر روہنگیا کے ستم زدہ مہاجر وں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔‘‘ اپنے تازہ ترین مشاہدات کی بنیاد پر ساجد صاحب نے ایک نیا انکشاف کیا:’’ حسینہ واجد نے عالمی دباؤ پر روہنگیا مہاجرین کو وقتی طور پر قبول کر تو لیا ہے لیکن وہ انھیں پناہ گزین کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں ۔ وہ اس انسانی المیئے سے سیاسی فائدے بھی اٹھانا چاہتی ہیں۔ اگلے سال بنگلادیش میں عام انتخابات ہو رہے ہیں۔
حسینہ بڑی ہو شیاری سے روہنگیا مہاجرین کے بحران کو اپنی انتخابی جیت کے لیے ایکسپلائٹ کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرتی نظر آرہی ہیں۔‘‘اُن کاکہنا ہے کہ اگر پاک، بنگلادیش سفارتی تعلقات بہتر ہو جائیں تو کاکسز بازار میں آئے روہنگیا مہاجر مسلمانوں کے کئی مصائب کم ہو سکتے ہیں۔