اسلام آباد( ویب ڈیسک) یوم سیاہ سے ایک دن پہلے اپوزیشن جماعتوں میں پھوٹ پڑگئی مولانا فضل الرحمان نے بلاول بھٹو زرداری کو بچہ قرار دے دیا بولے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے بچہ ہونے کی وجہ سے عمران خان سے بہتری کی توقع کی اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد
سے قبل تو اس کے ایجنڈے کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کی گئیں تھیں لیکن اس کے اعلامیے میں کوئی واضح اعلان موجود نہیں تھا۔ یاد رہے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس نے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’ملکی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دیا تھااسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کےعلاوہ عوامی نیشنل پارٹی، عوامی وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے وفد بھی شریک ہوئے تھےمولانا فضل الرحمان نے اے پی سی میں اپنی تجاویز رکھتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کا ایک سال مکمل ہونے پر 25 جولائی کو یومِ سیاہ منایا جائے گا لیکن ساتھ ہی انھوں نے اپوزیشن کے تمام ارکان کے استعفے جمع کرنے کی بھی تجویز دی۔لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نےاس وقت یہ تجاویز ماننے سے انکار کردیا۔اس بارے میں صحافی ایم بی سومرو کا کہنا تھااس وقت پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے سب سے زیادہ ارکان ہیں۔اور سندھ میں اپنے پیپلز پارٹی کو اپنے ارکان کو استعفیٰ دینے کے لیے آمادہ کرنا مشکل ہو گا اور وہ خود بھی اس بارے میں ہزار بار سوچیں گےان کے مطابق ایک بات جس پر سب متفق ہوسکتے ہیں وہ 25 جولائی کو یومِ سیاہ منانے کی تجویز ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے تجویز رکھی گئی کہ اگر فوری طور پر اسمبلی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے تو سینیٹ چییرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جا سکتا ہے۔تاہم ایم بی سومرو کا کہنا تھا کہ’سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس وقت ایک انتہائی طاقتور لابی ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔‘اس کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس میں حکومت اور اس کی کارکردگی پر کھلے لفظوں میں تنقید تو کی گئی لیکن اپوزیشن کی جانب سے کسی قابلِ عمل اقدام کا اعلان اس میں موجود نہیں تھا۔اسی کانفرنس میں پیش کی گئی 25 جولائی کو یومِ سیاہ منانے اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجاویز کا بھی اس اعلامیے میں کوئی نام و نشان نہ تھا۔کسی قابل عمل اقدام کی جگہ اعلامیے میں کہا گیا تھس کہ تمام جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ حکومت کے فیصلے ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں اور نئے ٹیکسوں نے ملک میں کاروبار کی سانس روک دی ہے۔اعلامیے میں مزید کہا گیا تھاکہ موجودہ حکومت نے 11 ماہ میں اپنی نااہلی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور ملک کا ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔اعلامیے کے مطابق ’غربت اور افلاس کی صورتحال عوامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتی دکھائی دیتی ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا سیلاب اور معاشی اداروں کی بدنظمی معیشت کو دیوالیہ کرنے کو ہے۔‘ کانفرنس سے قبل یہ قیاس آرائیاں عروج پر تھیں کہ حزبِ مخالف کی کون سی جماعت اس کانفرنس کا حصہ بنے گی، شُرکا کا ایجنڈا کیا ہوگا اور کیا حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو ترجیح دی جایے گی یا نہیں۔سب سے پہلے بلاول بھٹو زرداری کی شرکت کے حوالے سے سوالات اٹھے اور ایسا تاثر دیا گیا وہ شاید بجٹ اجلاس کی وجہ سے اے پی سی میں شرکت نہیں کر پائیں گے لیکن بلاول نے اجلاس میں شرکت کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں نے مولانا فضل الرحمان کو زبان دی تھی کہ میں اے پی سی میں شریک ہوں گاسینیئر صحافی ایم بی سومرو کے مطابق میڈیا کی قیاس آرائیاں بےوجہ نہیں تھیں۔ایک روز پہلے پیپلز پارٹی نے اے پی سی میں شرکت کرنے والے وفد کا اعلان کیا تھا جس میں بلاول کا نام نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے کہ آیا وہ اے پی سی میں شریک ہوں گے بھی یا نہیں۔