جوں جوں عام انتخابات اور شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں جاری کیسز کے فیصلے کا وقت قریب آ رہا ہے، ویسے ویسے پاکستانی سیاست ایک دلچسپ رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پانامہ کیس کے فیصلے سے پہلے، اس کے بعد اور موجودہ حالات میں آج زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ کیس جب عدالت میں نہیں تھا تو شریف فیملی ایک مضبوط پوزیشن میں دکھائی دیتی تھی۔ کیس کے فیصلے سے متاثر ہونے کے بعد آج حالات شریف فیملی کے لئے سازگار دکھائی نہیں دے رہے۔ اور یہ چیز نواز شریف اور انکی بیٹی کے جارحانہ رویے سے واضح ہے۔
نواز شریف جارحانہ رویے میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ شاید اب ان کے لئے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہو۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ سیاست ان کے لئے کرپشن کیسز کے بعد ختم ہو جائے گی اور انہیں اڈیالہ جیل جانا پڑے گا۔ وہ اداروں کو کسی قیمت پر بخش نہیں رہے۔ میاں صاحب ‘سویلین بالادستی’ کا نعرہ لے کر عدلیہ اور مقتدر حلقوں کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر چکے ہیں۔ ایک طرف وہ اعلیٰ عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو دوسری طرف اپنے خطابات میں ‘خلائی مخلوق’ پر تنقید کے نشتر برساتے ہیں۔
اداروں کے خلاف جنگ اب اس نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ میاں صاحب پرانی باتوں کو کھول کر بیٹھ گئے ہیں۔ ان کے حال ہی میں دیے گئے ممبئی حملوں کے بارے میں متنازع بیان کے بعد ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ جہاں ان پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید ہوئی، وہیں انکے اس بیان کی وجہ سے بھارتی میڈیا کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کا موقع بھی ملا۔
میاں صاحب کے اس بیان نے سیاست کا ایک نیا رخ متعین کیا ہے۔ یہ بھی میاں صاحب کی ایک سوچی سمجھی چال ہے۔ بیان کی ٹائمنگ، نوعیت اور یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ نواز شریف صاحب کو یہ بیان دینے کی ضرورت اس وقت ہی کیوں پیش آئی؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے انہوں نے اپنے پرانے بیانیے ‘مجھے کیوں نکالا’ کو عوام میں مقبول کرایا، اسی طرح وہ ایک نئے بیانیے کے ساتھ اب عوام کی عدالت میں اتریں گے۔ پرانے بیانیے کا نواز شریف کو بہت فائدہ ہوا۔ وہ عوام کی بڑی تعداد میں یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ وہ مظلوم ہیں، احتساب صرف ان کے خاندان کا ہو رہا ہے اور نیب میں چلنے والے کرپشن کیسز سے ان کو ٹارگٹ کر کے سیاست سے باہر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ آج عوام کی ایک بڑی تعداد ان کرپشن کیسز کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
دوسرا اس نئے بیانیے کے ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنا کر دبائو میں لانے کی کوشش کریں گے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات کی وجہ سے ہم تنہا ہوتے جا رہے ہیں، جیسا کہ انہوں نے اپنے بیان میں کہا۔ وہ اپنے اداروں کو ڈائریکٹلی ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ یہ سوچیں کہ جب میاں صاحب نے کہا کہ ‘کیا ہمیں نان سٹیٹ عناصر کو بارڈر کراس کر کے 150 لوگوں کو مارنے کی اجازت دینی چاہئیے؟’ تو کیا یہ ڈائریکٹلی افواج پر حملہ نہیں؟ کیونکہ بارڈر مینجمینٹ پاک افواج کا کام ہے۔
تیسرا عام انتخابات قریب ہیں، اور احتساب عدالت کے کیسز کا فیصلہ بھی آنے والے دنوں میں متوقع ہے، تو ایسے میں خود کو مظلوم ثابت کر کے عوام میں ہمدردی اور ووٹ حاصل کرنا ایک مقصد ہو سکتا ہے۔
چوتھا میاں صاحب یہ چاہتے ہیں کہ احتساب عدالت کے ممکنہ کرپشن کیسز کا فیصلہ ان کی مقبولیت پر زیادہ اثرات مرتب نہ کرے۔ کیونکہ فیصلہ انتخابات سے پہلے آنے پر، جس کے قوی امکانات موجود ہیں، نون لیگ کو سیاسی طور پر نقصان سے دوچار کرے گا جو کسی صورت پارٹی کے لئے قابل قبول نہیں۔
آخر میں نواز شریف عالمی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جیسے ماضی میں نواز شریف مشکل ترین حالات میں ایک کامیاب ڈیل کے ذریعے سعودی عرب گئے، بالکل ویسے ہی وہ چاہتے ہیں کہ انہیں عالمی طاقتوں کی ہمدردی حاصل ہو اور انہیں مشکلات سے چھٹکارا مل سکے۔
میاں صاحب کا اس نئے بیانیے کے پیچھے جو بھی مقصد ہو، بہرحال اس سے پاکستان کا عالمی امیج خراب ہوا ہے۔ میاں صاحب تین بار ملک کے وزیراعظم رہے، لہٰذا ان سے اس قسم کا بیان بالکل بھی متوقع نہیں تھا۔ بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ میاں صاحب کے اس بیان نے بھارت کو پاکستان پر تنقید کا موقع فراہم کیا۔
اس لڑائی سے پاکستان کا عالمی امیج خراب ہو رہا ہے۔ آج میاں صاحب کے جارحانہ رویے کا نتیجہ سامنے ہے۔ اگر جنگ ایسے ہی جاری رہی تو مستقبل میں نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ لہٰذا اداروں اور سیاستدانوں کی اس جنگ کو یہیں ختم ہونا چاہئیے۔