اسلام آباد;پاکستان کے معروف صحافی ، تجزیہ کار و کالم نگار جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ ہم جتنے بھی جانبدار‘ نواز شریف کے جتنے بھی مخالف ہو جائیں ہمیں ماننا ہوگا وہ نواز شریف جو 13 جولائی سے قبل اپنی غیر مقبولیت کی انتہا کو چھو رہا تھا‘لوگ ایون فیلڈ
کے سامنے جسے گالیاں دیتے تھے اور وہ خاموشی سے سرجھکا کر گزرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھااور جس کے امیدوار اس کے ٹکٹ واپس کر رہے تھے وہ آج دوبارہ پاپولر ہورہا ہے‘نواز شریف جب واپس آیا‘ وہ جب اپنی بیٹی کے ساتھ جہاز کے اندر سے گرفتار ہوا‘ وہ جب رائفل بردار باوردی جوانوں کے نرغے میں جہاز سے باہر لایا گیا‘ جب اس کی ادویات اور ڈاکٹر کو اس سے الگ کر دیاگیا‘ جب باپ اور بیٹی کو رات کے وقت اڈیالہ جیل میں بندکیا گیا‘ جب دونوں کو سی کلاس میں رکھا گیا‘جب میاں نواز شریف کو بیرک میں فرش پر سلایا گیا‘ جب باتھ روم بیرک سے دور تھا اور جب مریم نواز کو جیل کے ووکیشنل سنٹر میں بند کیا گیا‘ جب ان کے ملاقاتیوں پر پابندیاں لگائی گئیںاور جب اسے جیل کا گندہ کھانا دیا گیا اور جب یہ کہانیاں جیل سے باہر نکلیں تو گو نواز گو کے نعرے لگانے والے لوگوں کے دلوں میں نواز شریف کی ہمدردی جاگنا شروع ہو گئی‘ ڈالر کی اڑان اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے اس ہمدردی کو بڑھا دیا‘ رہی سہی کسر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے
راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب اور حنیف عباسی کے خلاف انسداد منشیات کی عدالت کے فیصلے نے پوری کر دی ۔لہٰذا نواز شریف اب دوبارہ مقبولیت کی موٹروے پر چڑھ چکے ہیں‘ ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا حنیف عباسی کے ساتھ 2012ءسے مسلسل زیادتی ہو رہی تھی‘ یہ عدالتوں سے تین سال سے فیصلے کی استدعا کر رہا تھا لیکن اے این ایف کے وکلاءعدالت میں پیش نہیں ہوتے تھے‘کیس کی تاریخ 21 اگست مقرر تھی لیکن 16 جولائی سے اس کیس کی روزانہ سماعت ہوئی اور21 جولائی کوفیصلہ سنا دیا گیا‘یہ فیصلہ بھی دن بارہ بجے محفوظ ہوا اور پھر پولیس اور رینجرز کے سائے میں رات کے گیارہ بجے سنا یا گیا‘حنیف عباسی نے عدالت کا فیصلہ تسلیم کر لیا لیکن عوام اسے ماننے کےلئے تیار نہیں ہیں۔