چہرے کی طرح ہر شخص کے ہاتھ کی لکھائی بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ ماہرین کے خیال میں ہاتھ کی لکھائی سے کئی طرح کی چیزیں معلوم کی جا سکتی ہیں جن میں لکھنے والے کی عادات، مزاج، صحت اور دیگر خصوصیات شامل ہیں۔
لاہور: درحقیقت ہاتھ کی لکھائی کا مشاہدہ باقاعدہ ایک علم ہے جسے ’’گرافولوجی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس علم کے تحت لکھے گئے حروف کے سائز اور ساخت سے لے کر الفاظ کے درمیان فاصلے تک کا بھی بغور معائنہ کیا جاتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ گر
افولوجی کے ذریعے جہاں کسی شخص کی دیگر خصوصیات معلوم کی جا سکتی ہیں، وہیں اس کی بیماریوں کا بھی پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ مگر گرافولوجی کے ناقدین اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے جسمانی اور ذہنی مسائل کو پرکھنے کے اس طریقے کے درست ہونے میں کئی طرح کے شکوک و شہاب پائے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں کی جانے والی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تحریر لکھنے والا شخص ہائی بلڈ پریشر یا پھر کسی اور دائمی یا دماغی مرض میں مبتلا تو نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ دباؤ کے ساتھ الفاظ لکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھاری شخص ہائی بلڈ پریشر کا مریض ہو سکتا ہے جبکہ ٹوٹے پھوٹے یا غلط الفاظ لکھنے والے اشخاص الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ایک ہی جملے میں لکھے گئے اکثر الفاظ کا رُخ مختلف ہو تو پھر یہ امر لکھنے والے شخص میں کسی دائمی بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ ایک نجی ادارہ نیشنل پین کمپنی کی بھی اس معاملے پر تحقیق جاری ہے۔ اس ادارے کا ماننا ہے کہ تحریر کی بظاہر معمولی حصے سے حتیٰ کہ انگریزی یا اُردو حروف کے نقطوں اور الفاظ کے درمیان فاصلے پر غور سے لکھنے والا شخص گھلنے ملنے اور باہر گھومنے پھرنے کا شوقین ہے یا پھر تنہائی پسند ہے۔ کمپیوٹر کے عام ہو جانے کے بعد اب ہاتھ سے لکھنے کا رجحان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کمپیوٹر پر ٹائپنگ کے بجائے ہاتھ سے لکھنا زیادہ مفید ہے کیونکہ جو لوگ کاغذ اور پین سے نوٹس بناتے ہیں ان کی یادداشت، صورتحال کو سمجھنے کی صلاحیت اور فیصلہ سازی کی قوت ان لوگوں سے بہتر ہوتی ہے کہ جو اس کام کے لیے لیپ ٹاپ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکھے گئے الفاظ کا سائز بھی لکھاری کی شخصیت سے متعلق بہت کچھ بتاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ بڑے الفاظ لکھتے ہیں تو پھر آپ کو باہر گھومنا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنا اچھا لگتا ہے۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ آپ میں خود اعتمادی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ البتہ اگر لکھے گئے الفاظ کا سائز بہت چھوٹا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ لکھاری شرمیلا مزاج رکھتا ہے جبکہ درمیانے سائز کے الفاظ لکھنے والے لوگ حالات سے مطمئن اور جلدی گھل مل جانے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں الفاظ کے درمیان فاصلہ بتاتا ہے کہ آپ لوگوں سے کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں۔ اگر الفاظ کے درمیان زیادہ فاصلہ ہو تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ خود مختار رہنا چاہتے ہیں اور لوگوں کی بھیڑ زیادہ پسند نہیں کرتے۔ جبکہ لفظوں کے درمیان کم فاصلہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے اور آپ لوگوں کے درمیان رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ لکھائی کا رُخ بھی آپ کے مزاج سے متعلق بہت سی چیزیں بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ بالکل سیدھے یا کھڑے الفاظ لکھتے ہیں تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ جذبات کو ظاہر کرنے میں قدرے کنجوس ہیں لیکن اگر آپ الفاظ کو تھوڑا ٹیڑھا لکھنے کے عادی ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنا پسند کرتے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے لکھے گئے الفاظ کا جھکاؤ دائیں جانب ہو تو یہ شخص نت نئے تجربات کرنے اور اجنبی لوگوں سے ملنے جلنے کا شوق رکھتا ہے۔ اس کے برعکس اگر لکھے گئے الفاظ کا جھکاؤ بائیں جانب ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شخص لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا خواہشمند نہیں ہے۔ مختلف حروف کے بغور معائنے سے لوگوں میں اطمینان کی کیفیت کو بھی جانچا جا سکتا ہے۔ اگر لکھنے والا شخص گول الفظ (مثلاً، ق، س، ش) کے آخری حصے کو زیادہ چوڑا بنائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھاری بہت اطمینان سے تحریر کر رہا ہے اور اسے اکثر و بیشتر نئی چیزیں آزمانے کا بھی شوق ہے۔ لیکن جو لوگ اس کے برعکس انداز میں لکھنے کے عادی ہیں وہ تنگ نظر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف الفاظ کے نقطے بھی لکھنے والے کے بارے میں کئی باتیں بیان کرتے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ اگر لکھنے والے شخص کی اندر تصور کرنے کی صلاحیت موجود ہے تو ایسے لوگ عام طور پر نقطے بہت اونچائی پر یا پھر گول بناتے ہیں۔ لیکن جو لوگ حرف کے بہت قریب نقطے بنائیں یا پھر ان کے نقطے گول کے بجائے لکیر جیسے ہوں تو ایسے لوگ خود احتسابی پسند کرتے ہیں اور کسی کمی یا کوتاہی کو برداشت نہیں کرتے۔ یہ بات جان کر شاید آپ حیران ہوں گے کہ دستخط بھی شخصیت سے متعلق بہت کچھ بتاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس طرح دستخط کرتا ہے کہ جو پڑھے جانے کے قابل نہیں تو پھر ایسے شخص کو سمجھنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ ماضی میں دستخط پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بہت گڈ مڈ دستخط کرنے والے لوگ روکھے اور بعض اوقات تلخ مزاج کے حامل بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس صاف ستھرے دستخط کرنے والے لوگ خود اعتماد اور کھلی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ جو لکھاری بہت زیادہ دباؤ یا گہرے رنگ سے لکھتے ہیں وہ ہر معاملے میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ البتہ بہت زیادہ دباؤ سے لکھنے کی عادت تنگی اور تنقید کو برداشت نہ کر پانے کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ جو لوگ بہت ہلکے رنگوں میں لکھتے ہیں وہ حساس طبیعت کے مالک ہو سکتے ہیں البتہ یہ امر توانائی کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ لکھنے کی رفتار سے آپ کے اندر صبر کا پیمانہ بھی ناپا جا سکتا ہے۔ بہت جلدی جلدی لکھنے کی عادت ظاہر کرتی ہے کہ آپ کاموں میں تاخیر کو برداشت نہیں کرتے جبکہ سست روی سے لکھنے والے لوگ زیادہ منظم ہوتے ہیں۔ صفحے پر لکھتے ہوئے کسی ایک طرف حاشیہ یا خالی جگہ چھوڑنے کی عادت آپ کے تجربات سے متعلق بیان کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص بائیں جانب خالی جگہ چھوڑ کر لکھتا ہے تو یہ عادت بتاتی ہے کہ لکھنے والا شخص کسی پُرانی یاد میں جڑا ہوا ہے اور اسے اپنے دماغ سے نکال نہیں پا رہا، جبکہ صفحے کے دائیں جانب جگہ چھوڑنے کی عادت ظاہر کرتی ہے کہ لکھنے والے کو کسی طرح کا خوف ہے یا پھر وہ مستقبل کے حوالے سے کسی پریشانی کا شکار ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص صفحے کے کسی حصے پر خالی جگہ نہ چھوڑے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والے کا دماغ مسلسل کام کر رہا ہے۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ ہاتھ کی لکھائی سے دماغ اور پٹھوں کے درمیان رابطے کو بھی جانچا جا سکتا ہے کیونکہ ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغ سے شروع ہوتا ہے اور پھر بازو سے ہوتا ہوا انگلیوں تک پہنچتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ آپ کی عادت اور انداز کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ اشارے فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ تحقیق ان لوگوں کے لیے خاصی کارآمد ہے جو ملازمت کے لیے انٹرویو لینے یا پھر عدالت میں کیسز کی انکوائری کا کام کرتے ہیں۔