لاہور (ویب ڈیسک) سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں ابھی کئی مہینے باقی ہیں لیکن اسلام آباد کی اقتدار کی غلام گردشوں سے اندر کی خبر ڈھونڈ لانے والے چیتے رپورٹر اور سارے ستارہ شناس تجزیہ نگار مصر ہیں کہ ایکسٹینشن پکی۔ سپہ سالار کے مزاج اور ان کی باجوہ ڈاکٹرائن سے واقف نامور کالم نگار محمد حنیف بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ دفاعی تجزیہ نگار یہ تاویلیں بھی لا رہے ہیں کہ باجوہ صاحب تو نہیں چاہتے لیکن ملکی حالات، سرحدوں پر منڈلاتے بادل اور جنوبی پنجاب کی پہچان – ڈی ایچ اے ملتان کا تقاضا یہی ہے کہ وہ دل پر پتھر رکھ کر اپنی ذمہ داریاں تین سال تک اور نبھاتے رہیں۔ افواہوں کی بھی ایک سائنس ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے جنرل صاحب کے دل میں کبھی ایکسٹینشن کا خیال ہی نہ آیا ہو، ہو سکتا ہے انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد گالف کھیلنے کے لیے نئی کِٹ بھی خرید لی ہو لیکن اب ہر روز اسی طرح کی پیش گوئیاں سن کر وہ بھی ایک سابق چیف جسٹس کی طرح یہ سوچنے لگیں کہ پتہ نہیں میرے جانے کے بعد اس ملک کا کیا ہو گا۔ اس طرح کی افواہوں کی سائنس کے تجربے ہم سکول کے دنوں میں کر چکے ہیں۔ ٹیچر کلاس روم میں آتا تھا اور ایک باقاعدہ سازش کے تحت ایک طالب علم ہاتھ کھڑا کرتا تھا اور پوچھتا تھا کہ سر کیا سپورٹس ڈے کے اگلے دن چھٹی ہے۔ وہ کہتا تھا کہ نہیں مجھے تو کسی نے نہیں بتایا۔ یہی سوال کلاس میں ہر آنے والے ٹیچر سے دہرایا جاتا تھا، ٹیچر سٹاف روم میں جا کر ایک دوسرے سے پوچھتے تھے، پی ٹی آئی ماسٹر آئیڈیا لے کر ہیڈ ماسٹر کے پاس پہنچ جاتا تھا اور چھٹی ہو جاتی تھی۔ اگرچہ جنرل قمر باجوہ نے اپنے یا ملک کے مستقبل کے بارے میں مجھ سے کبھی مشورہ نہیں مانگا لیکن مشورہ حاضر ہے، سر ایکسٹینشن نہ لیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سپہ سالار کسی سیاستدان سے ایکسٹینشن لیتا اچھا نہیں لگتا۔ جو خود اپنے آپ کو ایکسٹینشن دیتے ہیں تاریخ ان کو یاد رکھتی ہے۔ جنرل ایوب خان نے کبھی ایکسٹینشن مانگی؟ آج بھی لوگ ان کے دورِ حکمرانی کو یاد کرتے ہیں اور کوئی کرے نہ کرے عمران خان تو بہت یاد کرتے ہیں۔ جنرل ضیا نے اپنے آپ کو ایکسٹینشن پر ایکسٹینشن دی اور سوویت یونین کے حصے بخرے کر دیے۔ جنرل مشرف کی وردی اتارنے کا معاملہ انتہائی بے شرمی کے ساتھ ٹی وی پر زیرِ بحث رہا۔ انھوں نے اتار کے نہ دی اور ڈالر کئی سال ان کی وردی کے احترام میں سر جھکائے کھڑا رہا۔ صرف ایک سپہ سالار ہیں جنھوں نے حالیہ سالوں میں ایک سیاستدان سے ایکسٹینشن قبول کی، وہ تھے جنرل کیانی۔ لوگ کہتے ہیں وہ بڑے مدبّر سپہ سالار تھے لیکن آپ نے کبھی جنرل کیانی کی تصویر کسی ٹرک کے پیچھے یا کسی واٹر ٹینکر پر دیکھی۔ بلکہ اب تو اخباروں کو اتنی جرائت بھی ہونے لگی ہے کہ ان کے سگے بھائی پر غبن جیسے گھٹیا الزامات کی خبریں چھاپتے ہیں۔ پاکستان کی فوج کے ناقابلِ شکست ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک ادارہ ہے اور اس پر کسی ایک فرد کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں پر کوئی جنرل کے عہدے پر اس لیے ترقی نہیں پاتا کہ وہ کسی چوہدری، کسی سردار یا کسی خان کا داماد ہے۔ صرف اور صرف میرٹ۔ جنرل جتنا بھی قابل ہو جب اس کے جانے کا وقت آئے گا تو اس کے پیچھے قطار میں اتنے ہی قابل امیدوار کھڑے ہوں گے۔ کیا جنرل مشرف کے جانے سے DHAs بننے کی رفتار میں کوئی کمی آئی۔ آئی ایس پی آر کو سر باجوہ چلاتے تھے اور کس شان سے چلاتے تھے کہ صحافی بھائی کہتے تھے ایسا کہاں سے لاؤں تجھ سا کہیں سے۔ لیکن پھر سر غفور آئے اور سر باجوہ کے مشن کو اتنا آگے لے گئے کہ صحافت کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔ جنرل راحیل کا دبدبہ کون بھول سکتا ہے لیکن کیا کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ طالبان جتنا جنرل راحیل سے ڈرتے تھے اتنا جنرل باجوہ سے نہیں ڈرتے۔جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو قوم کے اِسی طرح ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔ ان کے چاہنے والوں نے ہر بڑے شہر کے بڑے چوک میں جانے کی باتیں جانے دو، ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں ٹائپ پوسٹر لگا دیے تھے۔ اب ہمیں یہ نہیں پتا کہ انھیں ایکسٹینشن ملی نہیں یا انھوں نے لی نہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ سعودی عرب میں ان کی نوکری کا بندوبست کیسے ہوا اور اس کے فرائض کیا تھے لیکن یہ سب کو پتا ہے کہ وہ شہزادوں کے ساتھ طعام کرتے ہیں اور ہفتے میں جتنے چاہیں عمرے کر لیتے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جنرل راحیل کے جانے کے باوجود ابھی کچھ مہینے پہلے اپنے ازلی دشمن ہندوستان کو ایک شکست فاش دی، اس کا جہاز گرایا، پائلٹ پکڑا، اسے چائے پلا دی اور پوری دنیا نے سنا جب اس نے کہا چائے زبردست تھی۔ جب جنرل باجوہ ریٹائر ہوں گے تو کیا اس زبردست چائے کا نسخہ اپنے ساتھ لے جائیں گے؟ ریٹائرمنٹ کے دن جنرل قمر باجوہ کو ایک شاندار پریڈ کروانی چاہیے، گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنا چاہیے اور پھر ایک پُر وقار تقریب میں اپنا سپہ سالار والا ڈنڈا اپنے جانشین کے حوالے کرنا چاہیے اس یقین کے ساتھ کہ یہ ڈنڈا ایسے ہی چلتا رہے گا۔