ایک بھرپورانتخابی مہم چلانے کے بعد جب ہیلری کلنٹن شکست سے دوچار ہوگئیں تو یقیناً انہیں بہت صدمہ پہنچا۔ انہو ں نے شکست کے بعد اپنے سپورٹرز کے بہت بڑے مجمع سے جو خطاب کیا وہ انتخابات اور خطابت کی تاریخ میں ایک شاہکارکی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ شدتِ غم سے چور جذباتی سامعین کو دلاسا دینا، انہیں حوصلہ دینا، انہیں امریکہ کی عظمت یاد دلانا اور انہیں باور کرانا کہ ہم نے ایک معرکہ ہی تو ہارا ہے ساری جنگ توابھی باقی ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری اور سمجھداری کا کام تھا۔ ہیلری نے کمال مہارت اور ضبط سے کام لیا اور جذباتی سپورٹرز کو شدت ِ غم کی کیفیت سے نکالا۔ یہ منظر دیکھ کر کہنا پڑتا ہے؎کتنا حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
تاہم ہیلری کلنٹن کی بحیثیت وزیرخارجہ، سینیٹر اور سیاستدان خدمات اوراس کا کمالِ فن اپنی جگہ مگر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ امریکی ووٹرز کے بدلتے موڈ کا اندازہ لگانے میں ان کے عرفان سے بڑی بھول ہوئی۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی کے پالیسی ساز اور امریکی میڈیا کے بڑے بڑے پنڈت بھی گراس روٹ لیول پر ووٹروں کے جذبات اوران کی تلخیٔ ایام کے بارے میں بے خبر رہے۔ تاہم ایک شخص نے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کی نامزدگی کے لئے پرائمری انتخابات میں جو پیش گوئی کی وہ سچ ثابت ہوئی اور اس نے امریکی انتخاب کے نتائج کے حوالے سے ہفتوں پہلے جو کچھ کہا وہ بھی سو فیصد درست نکلا۔ یہ شخص کون تھا؟
یہ شخص مائیکل مور تھا۔ مائیکل مور امریکہ کا ایک بڑا پاپولر فلم ساز اور بیسٹ سیلر مصنف ہے۔ جی ہاں ! یہ وہی شخص ہے جس نے 9/11کے بارے میں جارج ڈبلیو بش کی تھیوری اور دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے بش بیانیے سے برملا اختلاف کیا تھا اور اس موضوع پر 2004میں ایک فلم ’’فارن ہائیٹ 9/11‘‘ بنائی جسےبہت پذیرائی ملی۔ مائیکل مور نے کہا تھا کہ ڈیمو کریٹک پارٹی کی پرائمری میں اپنی پاپولیرٹی کےباوجود برنی سینڈر ہارجائے گااورہیلری جیت جائیں گی۔ اسی طرح انتخاب سے کئی ہفتے پہلے مائیکل مور نے بڑے منطقی دلائل کے ساتھ کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ یہ انتخاب جیت جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ زندگی میں مجھے کبھی یہ خواہش نہیں ہوئی کہ میرا کیا ہوا کوئی تجزیہ غلط ثابت ہو مگر پہلی مرتبہ میری دلی تمنا ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے بارے میں میری پیش گوئی غلط ثابت ہو۔ امریکہ کاسارا مین اسٹریم میڈیا ہیلری کی کامیابی کے شادیانے بجا رہا تھا اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بازاری اور اخلاق سے عاری شخص ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔
مائیکل مور کاکہنا ہے کہ امریکہ کی مڈل کلاس اور وہاں کی ورکنگ کلاس امریکہ کی حکمران جماعت اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے کتنی ناراض، نالاں اور ناخوش تھی اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ عام امریکی معاشی مصائب اوربیروزگاری کے ہاتھوں انتہائی پریشان اور مصیبت زدہ تھا۔ اس کے بار ےمیں امریکی ایلیٹ کلاس کا رویہ وہی انقلاب فرانس والا تھا کہ غریبوں کوروٹی نہیںملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے۔ ایک طرف ساری قوم معاشی طور پر تقریباً دیوالیہ ہوچکی تھی اور اکثریت صرف ساڑھے سات ڈالر فی گھنٹہ کی اجرت پر کام کرنے پرمجبور تھی جبکہ سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے جارہے تھے۔ مائیکل مور نے ثقہ اعداد و شمار کے مطابق ثابت کیا کہ امریکہ کے صرف ایک فیصد لوگ ارب پتی ہو رہے ہیں باقی آبادی کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اوباما کی پالیسیوں کی بدولت اس وقت ایک فیصد ایلیٹ کلاس کے پاس امریکی دولت کا 50 فیصد ہے جبکہ 1980میں اِسی ایک فیصد کے پاس امریکہ کی دولت کا صرف 26فیصد تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہیلری اور بل کلنٹن کے خطابات کی رقوم اور بیرونی دنیا سے ملنے والے ’’گفٹس‘‘ کی مالیت کئی ملین ڈالر تک جا پہنچی ہے جس کی بنا پروہ بھی ایلیٹ کلاس میں شامل ہوگئے ہیں۔ دراصل ڈیموکریٹک پارٹی عام آدمی سے بالکل کٹ کر رہ گئی تھی۔
شاید کم لوگوں کو ادراک ہوگا کہ اب امریکی سرمایہ دار اپنی صنعتیں اور کارخانے چین ، ویت نام اور بنگلہ دیش میں لگا رہے ہیں مثلاً آئی فون کا ڈیزائن امریکہ میں بنایا جاتا ہے اورعملاً اسے چین کے کارخانوں میں تیار کیا جاتا ہے۔ یہی حال فیشن انڈسٹری کا ہے۔ ایسی بے شمار چیزیں ہیں جن کے امریکی کارخانے بیرون ملک لگے ہیں تاکہ سستی لیبر سے فائدہ اٹھایا جاسکے جبکہ امریکہ میں کارخانے نہ ہونے کی بناپر امریکی بیروزگاری کا شکار ہیں۔ اسی طرح غیرقانونی طور پر مقیم زیادہ تر میکسیکو کے لوگ امریکی سرمایہ کاروں کی بلڈنگ انڈسٹری وغیرہ کے لئے سستی لیبر فراہم کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے عام امریکی ووٹروں کے ان دکھوں کو نمایاں کرکے اور مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر انہیں شکار کیا جبکہ ہیلری ان کے کرب اور غم کا اندازہ لگانے میں ناکام رہیں۔ میںامریکی انتخابات کے دوران کئی پاکستانی امریکنز سے رابطہ میں رہا جن میں پروفیسر شہباز گل شکاگو سے، قاضی خالد بوسٹن سے اور ڈاکٹر بلال پراچہ اوکلاہاما سے شامل تھے۔ یہ حضرات کم و بیش تجزیہ تو حقیقت پسندانہ کرتے تھے مگر نوید ہیلری کی کامیابی کی سناتے تھے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اور پرائمری میں ہیلری کلنٹن کا مقابلہ کرنے والے برنی سینڈر نے کہا ہے کہ پاپولر ووٹ اور الیکٹورل کالج کے درمیان تفاوت کی شق کو دوبارہ زیربحث لایا جائے اور کامیابی کے لئے معیار صرف پاپولر ووٹ کو قرار دیا جائے۔ قارئین کے لئے میں ایک سادہ مثال پیش کرتا ہوں کہ اگر کسی ریاست میں الیکٹورل کالج کے کل چالیس ووٹ یعنی 40ایوانِ نمائندگان ہیں تو وہاں سے جس صدارتی امیدوار کو عام ووٹروں کی معمولی سی بھی اکثریت حاصل ہوگی اسے سارے چالیس کے چالیس ووٹ مل جائیں گے۔ 19ویں صدی میں تین بار یہی صورتحال ہو ئی جبکہ 2000میں جارج ڈبلیو بش کے پاپولر ووٹ کم اور الگور کے زیادہ تھے اور وہ 2016کی طرح یہ الیکشن ہارگئے۔ ڈیموکریٹک امیدوار الگور عدالت میں بھی گئے تھے مگر بعد میں امریکی سسٹم بچانے اور ملک میں خانہ جنگی سے اجتناب کی خاطرانہوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ مائیکل مور اور بعض د وسرے تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس کی نسل پرستی کے بنا پر یا گورا شاہی کے بار ےمیں اس کے خیالات کو پسند کرنے یا اس کے آزادانہ سماجی رویوں سے متاثر ہو کر یا مسلمانوں کے خلاف اس کے نظریات کی خاطر ووٹ نہیں دیئے، امریکیوں نے ڈونلڈٹرمپ کی محبت میں نہیں بلکہ ہیلری سے اظہار ِ نفرت کے لئے ٹرمپ کو ووٹ دیئے ہیں۔ امریکی ووٹروں کے پاس سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اظہار ِ نفرت کے لئے ٹرمپ کے علاوہ کوئی چوائس ہی نہیں تھی اسی لئے اب امریکہ میں تیسری پارٹی کی شدت سے ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔ پاکستان میں بھی سیاسی اجارہ داری کا دو پارٹی سسٹم نشانے کی زد پر ہے تاکہ لوگوں کے پاس تیسری چوائس بھی ہو۔
تحریر:ڈاکٹر حسین احمد پراچہ بشکریہ جنگ