جدہ (ویب ڈیسک) کئی لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور تھائی لینڈ کے اچھے سفارتی تعلقات یا دوستانہ تعلقات قائم نہیں ہیں ، سعودی حکومت اور ادارے اپنے شہریوں کا تھائی لینڈ کا سفر بالکل پسند نہیں کرتے اور نہ ہی تھائی لوگوں کی سعودی عرب آمد پسند کرتے ہیں ۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ 1989 میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جسے بلیو ڈائمنڈ افئیر کا نام دیا گیا ہے ۔یہ واقعہ ہی 30 سال سے سعودی عرب اور تھائی لینڈ کے ترش تعلقات کی اصل وجہ ہے ۔ ہوا دراصل یہ تھا کہ تھائی شہریوں کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف مسلسل ایسے جرائم کا ارتکاب سامنے آیا تھا ، سعودی عرب کے شاہی محل میں صفائی کا کام کرنے والے ایک تھائی شہری نے وہاں سے ایک قیمتی ہیرا چرا لیا تھا اور اسے لے کر اپنے ملک بھاگنے میں بھی کامیاب ہو گیا ، کیرانگ کرائی نامی یہ تھائی شہری قیمتی ہیرے ویکیوم کلینر کے تھیلے میں چھپا کر محل سے نکال لے گیا ، بعد میں تھائی لینڈ کی پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات کیں ۔ تفتیش میں کریانگ کو مجرم قرار دے کر 7 سال قید کی سزا سنائی گئی اور چوری شدہ ہیرے برآمد کرکے واپس سعودی عرب بھجوا دیے گئے ۔ مگر اس چور کو 7 سال کی بجائے 3 سال بعد ہی قید سے رہا کر دیا گیا اور وجہ بیان کی گئی کہ قید کے دوران جیل میں اس کا رویہ مثالی تھا ۔ تھائی لینڈ کی تحقیقاتی پولیس ٹیم کے سربراہ جنرل چالر خود ہیرے واپس کرنے سعودی عرب آئے تھے تو پتہ چلا کہ یہ چوری کیے گئے ہیرے پورے نہیں تھے اور ان میں سے زیادہ قیمتی ہیرے بدستور غائب تھے ۔ ان میں ایک سب سے قیمتی نیلا ہیرا بھی غائب تھا ، بعد میں پتہ چلا کہ بنکاک میں منعقدہ ایک میلے میں کچھ سرکاری افسران کی بیگمات یہ چوری شدہ ہیرے پہنے ہوئے تھیں ۔ اس انکشاف پر سعودی اعلیٰ حکام غصے سے آگ بگولا ہو گئے کہ تھائی افسران نے مسروقہ ہیرے اپنی بیویوں میں تقسیم کر دیے تھے ۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی اور بداعتمادی آ گئی ۔ کچھ عرصہ بعد ایک سعودی تاجر محمد الروویلی ان خبروں کی تصدیق کرنے کے لیے تھائی لینڈ پہنچے کہ کیا واقعی شاہی خاندان کے چوری شدہ ہیرے سرکاری افسران نے ہڑپ کرکے اپنی بیویوں اور معشوقاؤں پر نچھاور کر دیے تھے ۔ مگر 1990 میں سعودی تاجر کو بھی تھائی لینڈ میں غائب کر دیا گیا اور انکا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا اور انکی زندگی یا موت آج بھی ایک معمہ ہے ۔ فروری 1990 میں تھائی لینڈ میں سعودی سفارتخانے کے 3 اہلکاروں کو بنکاک میں قتل کر دیا گیا ، سفارتی عملے کے تین افراد کے قتل پر سعودی حکومت نے گہرے غم و غصے کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ تھائی حکومت اس ضمن میں کچھ نہیں کر رہی اور جان بوجھ کر سستی دکھا رہی ہے ۔ 1995 میں انکشاف ہوا کہ اس ہیروں کی گمشدگی کے کیس کی تفتیش کرنے والا جنرل چالر ایک سعودی ہیروں کے تاجر اور اسکی بیوی کے قتل میں ملوث تھا اور اسی نے اس قتل کا حکم دیا تھا ۔ اس جنرل کو جرم ثابت ہونے پر 50 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں کام کرنے والوں کی تعداد 1989 میں 2 لاکھ سے کم ہو کر 2008 میں 10 ہزار تک آ چکی تھی ، سعودی حکومت نے تھائی شہریوں کو ورک ویزے جاری کرنا بند کر دیے تھے ، 2016 میں جنرل چالر کو قید سے رہائی ملی تو انہوں نے نیکی کی ترغیب شروع کر دی اور انکی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ، ہیروں نے میرا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا ۔