جاپان میں موسم گرما کےسالانہ شکارکے دوران 333وہیل مچھلیاں مار دی گئیںجن میں سے 128مادہ تھیں اور122حاملہ تھیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ اعداد و شمار بین الاقوامی وہیلکمیشن میں جمع کردہ ایک تکنیکی رپورٹ میں شائع کئے گئے ۔
رپورٹ کے شائع ہوتے ہی تحفظ کاروں کو ایک حیرت کا ایک جھٹکا لگا ، انہوں نے وہیلز کے اس طرح کے شکار کی شدید مذمت کر دی اور ایسے فعل پر نفرت کا اظہار کیا ہے۔
اتنی بڑی تعداد میں وہیل مچھلیاں مارنے پر جب جاپان کو عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو جاپانیوں نے اسے سائنسی تحقیق کا نام دے دیا۔
جاپانی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ انٹارکٹک میں سمندری حیات کے ایکوسسٹم کے ڈھانچے اور حرکیات کو سمجھنے کے لیے ایک تحقیق کر رہے ہیں جس کے لیے وہیل مچھلیوں کو مارنا ضروری تھا۔
جاپان میں وہیل مچھلیوں کا شکار گوشت حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے حالانکہ عالمی عدالت کی طرف سے بھی جاپانی حکومت کو اس حوالے سے متنبہ کیا گیا ہے۔
یہ لوگ نیزے کے ساتھ ایک گرنیڈ وہیل مچھلی کے جسم میں داخل کرتے ہیں جو اندر جا کر دھماکے سے پھٹ جاتا ہے اور وہیل مچھلی ہلاک ہوکر سمندر کی سطح پر تیرنے لگتی ہے۔ بیشتر ممالک کی طرف سے جاپانیوں کی اس حرکت کی مذمت کی جا رہی ہے تاہم وہ اب بھی سائنسی تحقیق کی آڑ میں یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جاپانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان وہیل مچھلیوں کا گوشت جاپان کی مچھلی منڈیوں میں فروخت ہورہا ہے۔ ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل کی سینئر پروگرام منیجر الیگزا ویل کا کہنا تھا کہ ”جاپانیوں کی طرف سے وہیل مچھلیوں کو ہلاک کرنے کی شرح بہت خطرناک حد کو چھو رہی ہے۔“