counter easy hit

2016 ختم ہونے سے پہلے کیا ہونے والا ہے ؟

پاناما لیکس اور نیوز لیکس کی تحقیقات کا رخ متعین ہو گیا ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ان کے بچوں اور ان کے قریبی ساتھیوں کے لئے آزمائش کا وقت شروع ہو چکا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں بھی ممکنہ حالات کے پیش نظر اپنا اپنا لائحہ عمل مرتب کرنے میں مصروف ہیں ۔ اس وقت ملک میں بظاہر جو سیاست ہو رہی ہے ، اس سے کہیں زیادہ ’’ بیگ ڈور پارلیٹکس ‘‘ ہو رہی ہے کیونکہ تمام حلقوں کو اس بات کا احساس ہے کہ دونوں لیکس کے معاملات کو بہرحال اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ہے ۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے پاناما لیکس اور نیوز لیکس ناگہانی آفات ہیں ۔ دونوں کا تعلق میڈیا سے ہے ۔ پاناما پیپرز بھی ایک اخبار میں شائع ہوئے ، جن میں وزیر اعظم پاکستان کے بچوں سمیت دنیا بھر کے ایک سو سے زائد حکمرانوں اور سیاست دانوں کے نام آئے ہیں اور ان کی بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ۔ نیوز لیکس کا تعلق بھی پاکستان کے ایک روزنامے میں شائع ہونے والی خبر سے ہے ۔ اس خبر میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی اندرونی کہانی دی گئی ہے ، جس سے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے بارے میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے منفی تاثر پیدا ہوا ہے ۔ نیوز لیکس کی ذمہ داری بھی وزیر اعظم کے قریبی لوگوں پر عائد کی جا رہی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف پاکستانی سیاست کی حرکیات  اور پاکستان کی حقیقی مقتدرہ کی کیمیا  کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انہوں نے جس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کابینہ میں بحیثیت وزیر خزانہ شمولیت اختیار کرکے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور اب پاکستان جیسے ملک میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ انہیں ان ناگہانی آفات سے کیسے نمٹنا ہے لیکن میرے خیال میں ان کے سیاسی کیریئر میں اس طرح کی صورت حال پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی ۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں نے دونوں لیکس کی تحقیقات کے لئے بہت زیادہ سیاسی دباؤ کا ماحول پیدا کیا اور بالآخر 6 ماہ بعد پاناما لیکس کا کیس سپریم کورٹ نے چلانے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے جبکہ 35 دن بعد وفاقی حکومت نے نیوز لیکس کی تحقیقات کے لئےکمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے ۔ پاناما پیپرز کیس کی سپریم کورٹ میں 3 سماعتیں ہو چکی ہیں اور تادم تحریر نیوز لیکس تحقیقاتی کمیٹی کا ایک اجلاس بھی منعقد ہو چکا ہے لیکن ابتدائی مرحلے میں ہی ان دونوں لیکس کی تحقیقات کا رخ متعین ہو چکا ہے ۔
سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے کیس کی سماعت سے تین چیزیں بالکل واضح ہو چکی ہیں ۔ کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ کر رہا ہے ، جس کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی ہیں ۔ جناب چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر معزز جج صاحبان اپنے ریمارکس کے دوران اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ پاناما پیپرز میں 400 سے زائد پاکستانیوں کے نام آئے ہیں لیکن عدالت کی ترجیح یہ ہے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں پہلے فیصلہ کرے ۔ یعنی پہلی بات تو یہ واضح ہو چکی ہے کہ پاناما پیپرز کیس فی الوقت وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ تک محدود رہے گا ۔ خود میاں محمد نواز شریف بھی یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ احتساب کا عمل ان سے شروع کیا جائے اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا بھی یہی مطالبہ تھا کہ پہلے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کو احتساب کے عمل میں لایا جائے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے تینوں بچوں مریم نواز ، حسن نواز اور حسین نواز نے اپنی آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے کچھ دستاویزات جمع کرا دی ہیں اور باقی دستاویزات اگلی سماعت پر جمع کرائیں گے ۔ عدالت نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ خود یہ ثابت کریں کہ آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک اثاثوں کے لئے ان کے پاس رقم کہاں سے آئی اور کن ذرائع سے بیرون ملک منتقل ہوئی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بار ثبوت وزیر اعظم کے بچوں پر ہے ۔ یہ بھی اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ اپنے بیرون ملک اثاثوں کے بارے میں وضاحت کریں ۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نے جس عدالتی کمیشن کے قیام کی بات کی ہے ، اب اس کمیشن کے قیام کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ وزیر اعظم کے بچے اپنے موقف کی تائید میں کیا دستاویزات جمع کراتے ہیں ۔ ان دستاویزات کو دیکھ کر عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ عدالتی کمیشن بنایا جائے یا موجودہ پانچ رکنی بنچ خود اس کیس کا فیصلہ کرے۔ اس طرح کیس کا رخ متعین ہو گیا ہے۔
دوسری طرف نیوز لیکس پر قائم کردہ کمیٹی پر اگرچہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو سخت اعتراضات ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ کمیٹی کے سربراہ جسٹس (ر) عامر رضا خاں وزیر اعظم نواز شریف کے انتہائی قریبی اور تعلق دار ہیں ۔ اس کے باوجود کمیٹی کا قیام ہی حکومت کے لئے مشکلات کا آغاز ہے ۔ اس کمیٹی کی تحقیقات کا رخ بھی متعین ہو چکا ہے ۔ کمیٹی کو صرف یہ طے کرنا ہے کہ انگریزی روزنامہ کے رپورٹر کو خبر کس نے ’’ فیڈ ‘‘ کی ۔ کمیٹی کو ہر حال میں ذمہ داری کا تعین کرنا ہے ۔
ان حالات میں یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ دونوں لیکس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ نہیں رہے گا۔ بیک ڈور سیاسی رابطوں سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں آئندہ کے لئے تیاری کر رہی ہیں ۔ 2016 ختم ہونے سے پہلے مستقبل کا سیاسی منظر نامہ واضح ہو سکتا ہے۔

بشکریہ جنگ

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website