شدت پسند تنظیم حرکہ الیقین کا نام پہلی بار اس سال اکتوبر میں برما کی سرحدی چوکیوں ہونے والے حملوں کے بعد سامنے آیا تھا۔
بنگلہ دیش کی سرحد پر واقع چوکیوں پر ہونے والے حملوں میں نو سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور آٹھ حملہ آور ہلاک ہوئے تھے جبکہ دو حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
حملے کے دوران حملہ آور 62 بندوقین اور 10 ہزار سے زائد کارتوس اور گولیاں بھی لوٹنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ ایک مربوط حملہ تھا جس میں اچھی خاصی منصوبہ بندی نظر آ رہی تھی۔ حملہ آوروں نے سرحدی فوج کے صدر دفتر کو جانے والے راستے پر ایک ای آئی ڈی نصب کی تھی اور ایک چھاپہ مار دستے کو وہاں تعینات کیا تھا تاکہ دیگر چوکیوں سے کمک نہ پہنچ سکے۔
اس حملے کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں برمی فوج نے اقام المجاہدین نامی گروپ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ بعد میں ایک اور گروپ روہنگیا سالیڈیرٹی آگنائزیشن یا آر ایس او نے اس کی ذمہ داری قبول کرنا شروع کر دیا۔
اس موقع پر شدت پسند گروپ نے یو ٹیوب پر ایک وڈیو جاری کی جس میں اس نے پہلی بار سکرین پر عربی زبان میں حرکہ الیقین لکھا ہوا نظر آیا۔ بعد میں 14 اکتوبر کو جاری ہونے والے دوسرے یو ٹیوب وڈیو میں تنظیم نے کھل کر حرکہ الیقین کا نام استعمال کیا اور مخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ برما کی سرحدی چوکیوں پر حملے کے سلسلے میں کسی اور نتظیم کے بیان پر کان نہ دھریں۔
ویڈیو میں آر ایس او کا نام لیے بغیر یہ کہا گیا کہ ‘کچھ لوگ ہماری تحریک اور ہماری برادری کو بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق حرکہ الیقین کو سعودی عرب کے شہر مکہ میں موجود بیس رہنگیا نژاد سینیئر رہنماؤں نے قائم کیا تھا اور وہی اس کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک کا نام عطاءاللہ بنایا جاتا ہے جو تحریک کے حلقوں میں امیر ابو عمار اور ابو عمار جنونی کی کنیت سے بھی جانا جاتا ہے۔
برما کی حکومت اپنے بیانات میں ان کا حافظ طاہر کے طور پر ذکر کرتی ہے، جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ان کی ایک اور کنیت ہو سکتی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق عطاءاللہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد شمالی رخائن علاقے سے نقل مکانی کر کے رہائش پذیر ہوئے تھے۔
ان کا خاندان بعد میں سعودی عرب چلا گیا۔ ان کی پرورش مکہ میں ہوئی جہاں سے ایک مدرسے میں انھوں نے دینی تعلیم حاصل کی۔
2012 میں رخائن میں تشدد کی لہر شروع ہونے کے بعد سعودی عرب سے روانہ ہو گئے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے ریسرچرز نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ سعودی عرب سے پاکستان جہاں انہوں نے جہادی ٹریننگ حاصل کی۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں موجود مرکزی رہبر شوری کے علاوہ عطاءاللہ سمیت ایک بیس رکنی کمیٹی علاقے میں موجود ہے اور پرتشدد کارروائیوں کی قیادت کر رہی ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق 9 اکتوبر کے حملوں کے بعد سعودی عرب، دبئی، پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں موجود علماء نے حرکہ الیقین کے حق میں فتوے جاری کیے ہیں۔