لاہور (ویب ڈیسک) اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف متحد ہو گئی ہیں اور میں سب سے واضح کردار جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا ہے۔حالانکہ مولانا فضل الرحمٰن الیکشن ہار چکے ہیں تاہم وہ اپنی شکست ذہنی طور پر تسلیم نہیں کر پا رہے،۔یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف قرارداد لانے کے لیے سرگرم ہیں۔
تاہم معروف صحافی ہارون الرشید نے اپنے کالم “ثبات اک تغیر کو ہے زمانےمیں ” میں لکھتے ہیں کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن خاموشی سے عمران خان کی حکومت کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔جس طرح کے اس سے قبل میاں نواز شریف بھی کرتے رہے ہیں۔اس سے قبل ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر مملکت آصف زرداری تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔آصف زرداری 2 ماہ کے بعد ہی تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ نا حکومت چلانا تحریک انصاف کی بس کی بات ہے، نہ ہی ملک۔آصف زرداری نے کھلے عام عمران خان کی حکومت کیخلاف طبل جنگ بجاتے ہوئے جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے 31 اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔جبکہ آصف زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کیلئے نواز شریف کا منانے کا ٹاسک مولانا فضل الرحمان کو سونپا ہے۔
تاہم اس حوالے سے تجریہ کارکہتے ہیں کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو ختم کرنے کی کسی تحریک کا حصہ بنیں گے۔نواز شریف اس وقت خود مشکلات کا شکار ہیں۔ جبکہ خود پر بنے کیسز کو ختم کروانے کیلئے نواز شریف پس پردہ معاملات بھی طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان دنوں ملک بہت سارے مسائل میں گھر ہوا ہے۔اس کے ساتھ ہی سابق حکمران بھی بہت سارے مسائل میں گھر ہوئے ہیں۔اپنے اپنے دور حکومت میں کی گئی کرپشن اب انہی کے گلے پڑ رہی ہے۔جب کہ عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد احتساب کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ کسی کے دباؤ میں آئے بغیر احتساب کا عمل جاری رکھیں گے۔اسی حوالے سے معروف صحافی ہارون الرشید اپنے ایک کالم “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں’میں لکھتے ہیں کہ جلد یا بدیر مالی بحران ختم ہو جائے گا۔عمران خان نواز شریف اور آصف زرداری سے بہتر حکمران ثابت ہو گا،کیونکہ اسے اربوں کھربوں لوٹنے کا شوق نہیں،نہ ہی وہ عدم تحفظ کا شکار ہے کہ بد عنوان افسروں کو تقرر کرے۔آصف علی زرداری کی طرف سے اپوزیشن کو متحدہ کرنے کی پہل کا مطلب کیا ہے؟ ایک پختہ فیصلے کی بجائے یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے دھمکی ہے۔مشکل ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس کی کچھ مدد کر سکے۔ایسا لگتا ہے کہ زرداری کا بھی نواز شریف کی طرح یوم حساب آن پہنچا ہے۔ہاورن الرشید مزید لکھتے ہیں کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔جب کہ دوسری طرف بتایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین اور سابق صدر مملکت آصف زرداری تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے متحرک ہوگئے ہیں۔ آصف زرداری 2 ماہ کے بعد ہی تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کرنا چاہتے ہیں۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ نہ حکومت چلانا تحریک انصاف کی بس کی بات ہے، نہ ہی ملک۔آصف زرداری نے کھلے عام عمران خان کی حکومت کیخلاف طبل جنگ بجاتے ہوئے جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔