اسلامی جمہوریہ پاکستان میں الیکشن 2018ء کی آمد آمد ہے۔ الیکشن میں کیا ہونے والا ہے؟ کس کے سر حکومت کا سہراسجے گا؟ کون اگلے پانچ سال کے لئے پاکستانی عوام کی نمائندگی کرے گا؟ یہ چند سوالات ہیں جو ہر ایک پاکستانی کے ذہن میں ہیں۔
وفاقی حکومت قومی اسمبلی کی نشستوں کی بنیاد پر بنتی ہے۔ قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 342 ہے جس میں 60 خواتین اور 10 اقلیتوں کے لئے مخصوص ہیں جب کہ 272 جنرل نشستیں ہیں جو کہ نئی حلقہ بندیوں میں پنجاب سے 7 نشستوں کی کمی کے بعد 141، سندھ میں 61 اور فاٹا میں 12 برقرار، خیبر پختونخوا میں 4 نشستوں کے اضافے کے بعد 39، بلوچستان میں 2 کے اضافے کے بعد 16، اور وفاقی دارلحکومت میں ایک نشست کے اضافے کے بعد 03 نشستیں ہو گئی ہیں۔
پاکستان میں قومی اسمبلی کی سب سے زیاہ نشستیں جیتنے والی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔
2013ء میں مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی میں 188 نشستیں واضح اکثریت کے ساتھ حاصل کر کے حکومت بنائی تھی۔ 46 نشستوں کیساتھ پی پی دوسری اور 32نشستیں لے کر تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت بنی تھی۔
2013ء کے پول ووٹوں کے تناسب سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ 32.77 فیصد ووٹوں کیساتھ پہلے، تحریک انصاف 16.92 فیصد ووٹوں کیساتھ دوسرے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 15.32 فیصد ووٹ حاصل کر کے تیسری پوزیشن لینے میں کامیاب ہوئی تھی۔
موجودہ سیاسی ہلچل نے گزشتہ سیاسی صورتحا ل تبدیل کردی ہے جس کے مطابق آئندہ آنے والے الیکشن بہت ہی دلچسپ منظر پیش کر رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب سے واضح اکثریت حاصل کرنے والی ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے پھر پارٹی صدرات سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کی جانب سے ساری عمر کے لئے سیاست سے آئوٹ کر دئیے گئے۔
دوسری طرف جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی آواز ایک بار پھر بلند ہو رہی ہے جس کا رد عمل گزشتہ روز سامنے آیا جب مسلم لیگ ن کے 6 قومی اسمبلی ممبران نے نہ صرف قومی اسمبلی کی سیٹ سے استعفیٰ دیا بلکہ پارٹی بھی چھوڑ دی۔
2013ء کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے دوسری بڑی پارٹی تحریک انصاف بھی الیکشن 2018ء میں اپ سیٹ کرنے کی کوششوں میں ہے، جبکہ آصف علی زرداری اور ان کے صاحب زادے بلاول بھٹو بھی اگلی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
دنیا نیوز کے پروگرام ہیڈ لائنز کے سروے کے مطابق مسلم لیگ ن پنجاب، پیپلز پارٹی سندھ اور تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں مضبوط جماعت کی پوزیشن میں ہے۔
لیکن اس سروے میں ایک چیز بھی سامنے آئی ہے وہ یہ کہ تحریک انصاف کی تمام صوبوں میں مقبولیت بڑی ہے جبکہ 2013ء کے مطابق مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مجموعی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے صوبہ پنجاب میں اگر تو موجودہ صورتحال برقرار رہی تو مسلم لیگ ن آئندہ حکومت بناتی نظر نہیں آ رہی ہے اور اس کا بھرپور فائدہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی اٹھانے کو تیار ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جہاں سندھ میں واحد جماعت سمجھی جاتی تھی اب اس کا بھی وجود اتنا مضبوط نہیں رہا جتنا کہ 2013ء میں تھا، بلکل اسی طرح کراچی میں بھی ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کا کریڈیٹ پیپلز پارٹی کو ہی ملنے والا ہے۔
اتنی دلچسپ صوتحال کے بعد 2013ء کی طرح کسی ایک پارٹی کی واضح اکثریت اور وفاق میں حکومت کہیں دور تک نظر نہیں آتی لیکن حتمی صوتحال کیا بنے گی، کون جیتے گا ،یہ تو 2018ء کے الیکشن کی شام کو کھلنے والے ووٹوں کے ڈبوں سے ہی پتا چلےگا۔