لاہور (ویب ڈیسک) پیرس میں گزشتہ دنوں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں اس تنظیم کے رکن ممالک نے پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ اس ادارے کے مطابق پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور کالے دھن کو کنٹرول کرنے کے لئے کافی اقدامات نہیں کئے۔
نامور کالم نگار محمد معاذ قریشی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔ایف اے ٹی ایف نے اس سال فروری میں پاکستان سے کہا تھا کہ اسے ان دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت کے امکانات کو کم تر کرنا ہوگا،جو مبینہ طور پر اس کی سرزمین پر سرگرم ہیں۔اس اجلاس کے بعد ایف اے ٹی ایف کے ایشیا پیسیفک گروپ کی تحقیقات کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کئے اور ایف اے ٹی ایف کے رکن ملک امریکہ اور جرمنی سمیت امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے پاکستان کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ ایک عالمی ادارہ ہے، جو جی سیون ممالک( امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان) کے ایما پر بنایا گیا ہے۔یہ ادارہ1989ء میں قائم ہوا اور اس کے قیام کا مقصد ان ممالک پر نظر رکھنا اور ان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہے، جو دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے اور عالمی امن کے لئے خطرہ قرار دیئے گئے، دہشت گردوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں۔اس تنظیم کا صدر دفتر پیرس (فرانس) میں ہے اور 37 ممالک اس کے رکن ہیں۔ اس کا دائرہ کار پوری دنیا ہے، یعنی یہ تنظیم دنیا بھر میں کہیں بھی سرگرمی کرسکتی ہے۔
یورپی یونین اور مجلس تعاون برئے خلیجی عرب ممالک جیسی تنظیمیں بھی اس ادارے کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ایشیا پیسیفک گروپ آن منی لانڈرنگ( اے پی جی)، کریبین فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (سی ایف اے ٹی ایف)، ای ویلیو ایشن آف اینٹی منی لانڈرنگ مژر اینڈ ڈی فنانسنگ آف ٹیرر ازم، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ ان ساؤتھ امریکہ اور مڈل ایسٹ اینڈ نارتھ افریقہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس جیسی عالمی تنظیموں کے ساتھ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی وابستگی ہے، یعنی ضرورت پڑنے پر ان تنظیموں کے تعاون سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس معلومات اکٹھا کرتی ہے۔انسانی معاشرے میں جرائم نئی بات نہیں۔ جرائم دو مقاصد کے لئے کئے جاتے ہیں، اول:طاقت، اختیار، اقتدار کے حصول کے لئے۔ دوئم:زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی خاطر۔ظاہر ہے کہ بین الاقوامی اور خود تمام ممالک کے اپنے قواتین جرائم کی اجازت نہیں دیتے، چنانچہ جرائم چھپ کر کئے جاتے ہیں اور ان سے حاصل ہونے والی دولت کو بھی ابتداً چھپا کر رکھا جاتا ہے اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس کو استعمال میں لانے کے لئے کسی نہ کسی طریقے سے اس کو صاف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسی کومنی لانڈرنگ کہا جاتا ہے، ایسے جرائم سکھانے والوں نے اس سے حاصل ہونے والی دولت کو چھپانے کا بندوبست بھی کردیا۔ ترقی پذیر ممالک سے اس طرح کی دولت ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں میں خفیہ کھاتوں میں جمع کرادی جاتی تھی،
بعد ازاں ان بینک کھاتوں سے اس دولت کو مختلف ممالک اور کھاتوں میں منتقل کیا جاتا تھا۔ متعدد ہیر پھیر کے بعد دولت کو صاف اور محفوظ سمجھا جاتا ہے اور عام استعمال میں لایا جاتا ہے، ایسی دولت ٹیکس کے نظام سے باہر ہوتی ہے کہ جب جرائم سے حاصل ہونے والی ایسی دولت بڑھنے لگی تو اس کے اثرات یہ ظاہر ہوئے کہ خود ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں نے بھی اس طرح کی خفیہ اور ٹیکس سے مستثنیٰ آمدنی اور دولت والے کھاتے کھولنا شروع کردیئے اور یوں ان ممالک کی ٹیکس وصولیوں میں کمی ہونے لگی۔اس کے تدارک کے لئے قانون سازی کا عمل شروع ہوا، امریکہ نے سب سے پہلے 1986ء میں اینٹی منی لانڈرنگ کا قانون بنایا اور بینکوں پر کھاتہ داروں کے لین دین کو خفیہ رکھنے کی سختی کو کم کردیا۔ پھر 1989ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس قائم کی گئی، پاکستان ایشیا پیسفک گروپ کا ممبر ہے، دنیا کے متعدد بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، خصوصاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس شروع میں منئی لانڈرنگ کو روکنے کے لئے اقدامات تجویز کرتی رہیں۔نائن الیون کے بعد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو یہ ذمہ داری بھی مل گئی کہ،
وہ دہشت گردی کے لئے مالی وسائل کی فراہمی کا سدِباب کرے۔ بعدازاں وسیع تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں میں مالی معاونت کے سدِباب کے لئے اقدامات تجویز کرنا بھی اس تنظیم کی ذمہ داری ٹھہرا۔گرے لسٹ دراصل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی ایک وقتی یا عبوری فہرست ہوتی ہے، جس میں ان ممالک کو رکھا جاتا ہے، جن پرمنی لانڈرنگ نہ روکنے کا اندیشہ ہوتا ہے، جونہی یہ اندیشہ دور ہو جاتا ہے، اس ملک کا نام فہرست میں سے نکال دیا جاتا ہے۔پاکستان نے 26نکات پر مشتمل ایک مفصل پلان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو پیش کردیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کہ کہا ہے کہ اس پلان پر عمل درآمد کرے۔ اس کے پاس پندرہ ماہ تک کا وقت ہے، اس کے بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالا جاسکتا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ تکنیکی اعتبار سے گرے لسٹ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو متاثر نہیں کرتی۔ پاکستان ماضی میں بھی 2012ء سے 2015ء تک گرے لسٹ میں رہ چکا ہے اور اس دوران پاکستان کو کوئی بہت خاص مالی نقصان نہیں پہنچا، لیکن گرے لسٹ میں شمولیت کی وجہ سے پاکستان ایک غیرملکی سرمایہ کار کی نظر میں ہائی رسک ملک بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوسکتی ہے اور پاکستان کی درآمدات و برآمدات کا چارٹ متاثر ہونے کے اندیشے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہاں البتہ یہ خدشہ رہے گا کہ کہیں امریکہ کے مزید دباؤ میں آکر پاکستان کو بلیک لسٹ میں نہ شامل کردیا جائے۔ایسی صورت میں پاکستان کو کچھ حد تک اقتصادی پابندیوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستان کو زیر نگرانی ممالک میں شامل کرنے سے اُس کی اقتصادی شرح پیداوار کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ یہ گرے لسٹ اگلی منتخب حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگی۔ اب یہ اگلی حکومت پر ہی ہے کہ وہ کیا اقدامات کرتی ہے، تاکہ پاکستان کا نام اس فہرست میں سے نکلوایا جاسکے۔